خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو جلسوں کی اجازت نہ ملنے پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اعجاز انوار پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی، ایڈووکیٹ جنرل، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی آپریشن پشاور کاشف آفتاب عباسی عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اعجاز انور نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سے دریافت کیا کہ کیا انہیں جلسہ منعقد کرنے کی درخواست موصول ہوئی ہے اور وہ کس کی رپورٹ پر اجازت کا فیصلہ کرتے ہیں، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس اور اسپیشل برانچ سے رپورٹ کے بعد جلسے کی اجازت کا فیصلہ ہوتا ہے،
تحریک انصاف کے وکیل شیر افضل خان مروت نے کہا دیگر پارٹیاں جلسے کر رہی ہیں لیکن پی ٹی آئی کو اجازت نہیں دی جا رہی، اس ماحول میں الیکشن کیسے منعقد ہوسکتے ہیں، انہوں نے ایک موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی زمان نے کمرہ عدالت میں ایس ایچ او کو دہشت گرد کہہ کر مخاطب کیا، جس پر ایس ایس پی آپریشن کے وکیل نے اعتراض کیا۔
جسٹس اعجازانورنے ریمارکس دیے کہ آپ سب ہمارے لیے مہذب ہیں، وکیل کو بھی اپنی حدود میں رہ کر بات کرنی چاہیے، عدالتی مداخلت پر علی زمان اور شیر افضل مروت نے پی ٹی آئی کے وکلاء کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی، عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو طلب کرتے ہوئے سماعت 5دسمبر تک ملتوی کر دی۔
بعد ازاں پشاور ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ انہیں خیبر پختونخوا کے کسی ایک ضلع میں بھی کنونشن کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ صرف ایک ہفتے کے دوران پشاور میں بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان، اور سراج الحق کے جلسوں سمیت خماریاں کلچرل شو بھی منعقد کیے جاچکے ہیں، اجازت نہیں دی جائے گی تو وہ اپنی نجی اراضی پر جلسے منعقد کریں گے۔
شیر افضل مروت نے حکام سے تحریک انصاف کے ساتھ انسانی سلوک کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں عوام نکلنا شروع ہوگئے ہیں اور عوام کے جم غفیر کو کوئی نہیں روک سکتا، مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتے، پارٹی اختلافات پر جو کہنا تھا وہ اپنے آڈیو پیغام میں کہہ چکے ہیں۔