مقدمے کی جزئیات پر بات کرتے اور عدالتی نظائر کو سنتے ہوئے اچانک عدالت کو یاد آیا کہ ان سب باتوں پر تو ہم پہلے فیصلہ دے چکے ہیں، اس کے بعد بلا توقف سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں بریت کا فیصلہ سنا دیا گیا۔
قومی احتساب بیورو جس کے پراسیکیوٹر نے گزشتہ سماعتوں پر دلائل کے لیے آدھا گھنٹہ مانگا تھا اپنے دلائل 2 منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل کر لیے اور کہا کہ ہم نے مریم نواز کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کی اس لیے اب اس مقدمے کا فیصلہ ختمی ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں
اس کے بعد میاں نواز شریف جو ایک سپاٹ چہرہ اور سنجیدہ تاثرات کے ساتھ عدالت آئے تھے ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ میں نے تو اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑا تھا، ایک کیس العزیزیہ رہ گیا ہے وہ بھی اللہ کے حوالے ہے۔
اس کے بعد ن لیگ پارٹی ورکرز نے عدالت کے باہر نعرے بازی شروع کر دی اور خوشی کا اظہار کیا۔
21 اکتوبر کو جب میاں نواز شریف لندن سے پاکستان آئے اور انہوں نے عدالتوں کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت سے مبصرین کی رائے میں ان کی بریت ایک طے شدہ فیصلہ تھی جس کی رسمی کارروائی ہونی باقی تھی۔
عدالت پیشی کا ماحول
بطور عدالتی رپورٹر راقم الحروف نے میاں نواز شریف کے احتساب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی کوریج کی ہوئی ہے اور وہاں بالکل ایسا ہی منظر دیکھنے میں آتا تھا جیسا اس بار میاں نواز شریف کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشیوں کے دوران نظر آیا۔
میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے پارٹی قائدین اور ورکرز کی ایک تعداد موجود ہوتی ہے جو آج بھی تھی۔ آج کی پیشی کے موقع پر مسلم لیگ ن کے احسن اقبال، عطاء اللہ تارڑ، مریم اورنگزیب اور دیگر قائدین میاں نواز شریف کے ساتھ موجود تھے۔
میاں نواز شریف کی عدالت آمد پر جہاں ایک طرف میڈیا کارکنوں میں ویڈیوز بنانے کی دوڑ لگی وہیں پر لیگی کارکنان جو میاں نواز شریف کو سلام کرنا یا ان سے ہاتھ ملانا چاہتے تھے ان میں کافی دھکم پیل دیکھنے میں آئی۔ گیٹ پر میاں نواز شریف کے آمد کے ساتھ ہی نعرے بازی کا آغاز ہو گیا اور پھر اسی ہجوم کے اندر چلتے ہوئے میاں نواز شریف عدالت کے سامنے دائیں جانب والی نشستوں پر براجمان ہوئے۔
عدالتی کارروائی میں کیا ہوا؟
چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمعل اسلام آباد ہائی کورٹ کا 2 رکنی بینچ آج میاں نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کر رہا تھا۔ آج کی عدالتی کارروائی کا آغاز ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں میاں نواز شریف کی اپیل پر دلائل سے ہوا جس میں ان کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کے مقدمے کو ثابت کرنے کے لیے شرائط ہیں، ایک تو یہ ایک اس شخص کے معلوم ذرائع آمدن عدالت کو بتائے جائیں، پھر جس جائیداد یا اثاثے کے بارے میں سوال ہے اس کی مالیت کا تعین کر کے عدالت کو بتایا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ نیب نے ایک فرضی کہانی بنائی تھی کہ مریم نواز شریف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بینیفشل مالکہ ہیں اور چونکہ بیٹیاں عام طور پر باپ کے زیرکفالت ہوتی ہیں اس لیے مریم، میاں نواز شریف کی بے نامی دار ہیں اور اس مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس شہادت پیش نہیں کی گئی۔
ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی
گزشتہ سماعتوں پر اسلام آباد ہائی کورٹ میاں نواز شریف کے خلاف نیب مقدمات پر اپنی رائے دے چکی ہے کہ نیب نے ان مقدمات میں اپنی طرف سے ثبوت اکٹھے کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ سپریم کورٹ سے جو مواد جے آئی ٹی رپورٹ کی شکل میں آیا اسی کی بنیاد پر ریفرنس بنا کر دائر کر دیے گئے اور نیب نے صرف ایک ڈاکیے کا کام کیا۔
آج ایک بار پھر سے نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی، ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی، ریفرنس دائر ہوگیا سزا بھی ہوگئی، اس پر موضوعِ بحث اچانک سے بدلا اور نیب پراسکیوٹر بولے کہ ہم فلیگ شپ ریفرنس میں میاں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل واپس لیتے ہیں۔ پھر چیف جسٹس کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے اثبات میں جواب دیا اور عدالت نے واپس لیے جانے کی بنیاد پر نیب کی اپیل خارج کر دی۔
جب عدالت کو یاد آیا کہ وہ تو پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے
میاں نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے پاکستان کی مختلف عدالتوں کے مقدمات جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے رکھے اور دلائل دیے کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات اور بے نامی جائیدادوں کے حوالے سے مختلف عدالتوں نے کیا فیصلے دیے ہوئے ہیں تو جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے آپ دوسری عدالتوں کے فیصلوں کی بات کر رہے ہیں ایک فیصلہ تو ہم نے بھی دیا ہوا ہے جس پر امجد پرویز نے چیف جسٹس عامر فاروق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کو لکھنے والے ایک جج آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہیں۔
اس کے بعد امجد پرویز ایڈووکیٹ نے ایون فیلڈ کرپشن ریفرنس میں مریم نواز شریف کی بریت کا فیصلہ پڑھنا شروع کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جن بنیادوں پر مریم نواز شریف کو بری کیا وہی بنیادیں میاں نواز شریف کے مقدمے پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اس پر نیب پراسکیوٹربولے مریم نواز کی بریت کے فیصلے کے خلاف نیب نے اس وقت اپیل نہیں کی اس لیے اب وہ فیصلہ حتمی ہے اس پر ہم دلائل نہیں دے سکتے جس پر عدالت نے سوال اٹھایا کہ پھر کیا ہم اس اپیل کو بھی منظور کرلیں؟
مریم نواز شریف بریت فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ کیا وہ فیصلہ اس عدالت پر بائنڈنگ ہے؟ وکلا کی جانب سے مثبت جواب آنے کے بعد جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بولے پھر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟ ہم تو پہلے ہی یہ فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے ایون فیلڈ مقدمے میں میاں نواز شریف کی بریت کا فیصلہ لکھوا دیا۔