ہزارہ ڈویژن اور گلگت بلتستان کے درمیان واقع خیبر پختونخوا کا علاقہ کوہستان بہت معروف ہے۔ یہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے تاہم یہ علاقہ قدرتی خوبصورتی اور سیاحت کی وجہ سے نہیں بلکہ روایتی متنازع جرگہ سسٹم سے جانا جاتا ہے۔
کوہستان میں اب بھی قدیم جرگے کی روایت برقرار ہے۔ اور ہر چھوٹے بڑے ایشو پر اجتماعی فیصلے کے لیے جرگہ بلایا جاتا ہے اور فیصلے کو حتمی قرار دے کر سب عمل کرتے ہیں۔
جرگہ کیسے کام کرتا ہے؟
کوہستان میں اب بھی جرگہ کی قبائلی روایت برقرار ہے۔ یہاں کے باسی اس کے فیصلوں پر عمل بھی کرتے ہیں۔
سجمل یادن نوجوان صحافی ہیں۔ ان کا تعلق کوہستان سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کوہستان میں اب بھی جرگے پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ ’جرگہ کوہستان کی قدیمی روایت ہے جب سے ہماری اباؤاجداد یہاں آباد ہوئے، تب سے یہ سسٹم یہاں رائج ہے‘۔”
سجمل کے مطابق جرگہ اقوام اور مخلتف علاقوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ جس کے فیصلوں پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ 90 کی دہائی تک جرگہ بہت زیادہ فعال ہوتا تھا۔ جرگے مخلتف ہوتے ہیں۔ گاؤں میں کوئی معمولی مسئلہ ہو تو گاؤں کی سطح پر جرگہ ہوتا ہے۔ اس میں اسی علاقے میں رہنے والے تمام اقوام کے نمائندے شامل ہوتے ہیں۔ تحصیل اور ضلع کی سطح پر بھی جرگے ہوتے ہیں جس میں سب کی یکساں نمائندگی ہوتی ہے۔
کوہستان میں جرگہ نظام موثر کیوں؟
سجمل کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں لوگ اب بھی اپنی روایت کو مانتے ہیں اور اس پرعمل کرتے ہیں، یوں جرگے کو طاقتور رکھتے ہیں تاکہ کوئی اس کے خلاف نہ جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جرگے میں فیصلہ جلد ہوتا ہے۔ عدالتوں کی طرح چکر نہیں لگانا پڑتے۔ سب سے بڑی بات کہ جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد بھی ہوتا ہے۔
کوہستان سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر جرگے کے حوالے سے بات کی کہ عدالتی اور پولیس نظام میں خامیوں کی وجہ سے جرگہ نظام پر اعتماد زیادہ کیا جاتا ہے۔ اس عوامی اعتماد ہی سے جرگہ طاقتور ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ علاقے کے مسائل پر حکومت سے مذاکرات ہوں یا گاؤں میں لڑائی جھگڑے ہوں یا پھرغیرت کا معاملہ، جرگے کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔
’جرگے کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر غیرت کے نام جرگہ کسی کے قتل کا فیصلہ کرے تو اس پر عمل درآمد بھی قریبی رشتہ دار، یعنی باپ، بھائی یا بیٹا ہی کرتا ہے‘۔
کیا غیرت کے نام پر قتل کا فیصلہ جرگہ کرتا ہے؟
کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اکثر رونما ہوتے ہیں تاہم بہت ہی کم واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ سرکاری افسر نے بتایا کہ جرگہ ہر اس ایشو پر فیصلہ کرتا ہے جس کے لیے جرگہ بلایا جائے۔
’کوہستان میں ایک بات پر سب ایک صفحہ پر ہیں، اور وہ ہے غیرت۔ اگر عورت نے غلطی سے بھی کسی سے بات کی یا ہنس کر کسی بات کا جواب دیا تو غیرت جاگ جاتی ہے اور سب کی نظر میں دونوں چور قرار پاتے ہیں‘۔
انھوں نے بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کوہستان میں عام ہے۔ اس میں جرگے کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ’غیرت کا معاملے پر جرگہ بلایا جاتا ہے تو جرگے کا فیصلہ قتل پر ہی ختم ہوتا ہے‘۔
تاہم نوجوان صحافی سجمل یادن اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرگے کو غیرت کے نام ہونے والے قتل کے واقعات سے جوڑ کر بدنام کیا گیا ہے۔ جرگے کا بڑا مثبت کردار بھی ہوتا ہے۔ یہ اقوام کا نمائندہ ہوتا ہے، اس کے فیصلے سچ اور انصاف پر مبنی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ علاقے میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عدالتی نظام کا تو سب کو پتہ ہے۔ ایسے میں جرگہ جلد فیصلے کرنے کی وجہ سے مقبول ہے۔
سجمل کا کہنا ہے کہ جب کسی کو ’چور‘ قرار دیا جاتا ہے تو لڑکی اور لڑکے کے قتل کا فیصلہ لڑکی کے گھر والے کرتے ہیں۔ صاف بات یہ ہے کہ اس میں جرگہ فیصلہ نہیں کرتا بلکہ لڑکی کے گھر والے واقعے خود فیصلہ کرتے ہیں اور پھر قتل کر دیتے ہیں جسے میڈیا میں جرگے سے منسوب کردیا جاتا ہے۔
’چور‘ کا مطلب کیا ہے؟
کوہستان میں ’چور‘ اسے قرار دیا جاتا ہے جہاں غیرت کا معاملہ آ جائے۔ اور ’چور‘ کا لفظ دہشت کا حامل ہوتا ہے۔ جب کوئی کسی کو ’چور‘ قرار دیتا ہے، اس کا مطلب ہے وہ اسے قتل کرنے والا ہے۔
کوہستان میں ڈیوٹی دینے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ چور کا لفظ غیرت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ مطلب کسی لڑکے لڑکی کے درمیان ناجائز تعلق، دوستی ہو اور لڑکی والوں کو پتہ چل جائے تو وہ لڑکے کو چور قرار دیتے ہیں۔ چور کے نام پر ہمیشہ پہلے لڑکی کا قتل کیا جاتا ہے اس کے بعد لڑکے کا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ لڑکی کا قتل ہو جائے تو لڑکے والے بھی قتل پر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح بات دب جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کوہستان میں سب کچھ معاف کیا جا سکتا ہے لیکن چور کو کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس پر پورا کوہستان متفق ہے۔
’میں نے وہاں پوسٹنگ کے دوران دیکھا ہے کہ غیرت کے نام پر خاموش رہنے والے یا پولیس رپورٹ کرنے والے کو بُری نظر سے دیکھا جاتا ہے، معاشرے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ محفلوں میں اس کی مثال دی جاتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس بندے کا اسی معاشرے میں رہنا محال ہوتا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ چور کے معاملے پر جرگہ ہو یا ایک عام کوہستانی سب کا فیصلہ ایک ہوتا ہے۔ اور وہ ہے قتل۔ اور اسی نام پر بے شمار قتل ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ چور کے نام پر قتل کوہستان میں معمول کی بات ہے تاہم اب ان واقعات میں کچھ حد تک کمی آئی ہے جس کی وجہ 2012 میں منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو ہے جسے ’کوہستان ویڈیو اسکینڈل‘ کہا جاتا ہے۔
سجمل کا کا کہنا ہے کہ چور کے معاملے پر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں اور بات جرگے تک بھی آتی ہیں۔ ’جرگہ بھی آخر میں فیصلہ علاقے کی روایت کو مدنظر رکھتے ہی کرتا ہے۔ اور جرگے والے بھی کوہستان کے ہی ہوتے ہیں، غیر نہیں‘۔
صحافی سجمل یادن کا بھی کہنا ہے کہ جس بات پر کوہستان متفق ہے۔ وہ ہے چور کا قتل۔ انہوں نے بتایا کہ چور کے قتل پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، اس پر سوال تب اٹھتا ہے جب لڑکی کو چھوڑ کر صرف لڑکے کو قتل کیا جائے۔ ہوتا یہ ہے کہ چور کے کیس میں دونوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ ایک بار ایک چرواہے نے مقامی بااثر ملک کے بیٹے کو چور قرار دے کر اپنی بیوی سمیت قتل کیا۔ جبکہ ملک خاموش رہا۔
پہلی بار جرگے کے فیصلے کو کس نے چیلنچ کیا؟
سال 2012 میں کوہستان عالمی میڈیا کی سرخیوں میں رہا۔ اس کی وجہ ایک ویڈیو تھی۔ اسے ’کوہستان ویڈیو اسکینڈل بھی کہا جاتا ہے۔ جس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والا قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔
مقامی افراد کے مطابق کوہستان کی تاریخ میں پہلی بار جرگے کے فیصلے کو کسی نے چیلنج کیا اور وہ تھا مقامی شخص افضل کوہستانی۔
2012 میں کوہستان کی ایک پرانی ویڈیو منظر عام پہ آئی جس میں شادی کی تقریب میں 4 لڑکیاں تالیاں بجا رہی ہیں اور ایک لڑکا روایتی رقص کر رہا ہے۔ چند منٹ کی اس ویڈیو پر کوہستان میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اور لڑکوں کو چور قرار دیا گیا۔ جبکہ 3 لڑکیوں کو قتل کیا گیا حالانکہ ویڈیو کے بعد ان کی شادیاں بھی ہو گئی تھیں۔
افضل کوہستانی اپنے 2 بھائیوں کے قتل فیصلے کے خلاف کھڑے ہو گئے اور بات پولیس اور میڈیا تک آ گئی۔ مقامی افراد کے مطابق پہلی بار کسی نے کھلے عام کوہستانی روایت کو چیلینج کیا تھا۔
کوہستان ویڈیو اسکینڈل پر حکومت بھی حرکت میں آئی۔ ایک وفد کوہستان بھی بھیجا گیا۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود بھی 3 لڑکیوں کو بچایا نہیں جا سکا۔ جبکہ چوتھی لڑکی کے ساتھ کیا ہوا اس کا ابھی تک کسی کو نہیں پتہ۔
پولیس کے مطابق ویڈیو اسکینڈل کے بعد قتل کے واقعات میں کمی آئی اور پولیس بھی سرگرم ہو گئی۔ لیکن اسے مکمل طور پر ختم یا روکا نہیں جا سکا ہے۔
پولیس کے مطابق چند دن پہلے کوہستان میں غیرت کے نام پر قتل کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے جس میں جوان لڑکی کی تصاویر سوشل میڈیا پر آنے کے بعد اس سے قتل کر دیا گیا۔ جبکہ دوسری لڑکی کو پولیس نے بچا لیا۔ اس میں مبینہ طور پر چور قرار دیے جانے والے تاحال لڑکے روپوش ہیں۔
افضل کوہستانی کیس
کوہستان ویڈیو اسکینڈل کا معاملہ اب بھی حل نہیں ہوا۔ مقامی پولیس کے مطابق اس میں اب تک درجنوں افراد قتل ہو چکے ہیں۔ جبکہ پہلی بار چور کے نام قتل کیس میں 3 افراد کو عمر قید کی سزا بھی ہوئی ہے۔ تاہم دونوں جانب دشمنی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے افضل کوہستانی نے اپنے خاندان سمیت علاقہ چھوڑ دیا۔
چند سال پہلے ایبٹ آباد میں افضل کوہستانی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق افضل کوہستانی واحد اواز تھی جسے ہمیشہ کے لیے خاموش کیا گیا۔
حکومت جرگے اور روایت کے سامنے بے بس کیوں؟
کوہستان کے مقامی افراد اب بھی قدیم روایت اور جرگے کے حق میں ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ افضل کوہستانی نے ان کی روایت اور جرگے کو بدنام کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ جرگہ نظام روایت کے مطابق ہے، اس کی مخالفت کا مطلب علاقے میں بے راہ روی اور بے حیائی کو فروغ دینا ہے۔
ماضی میں کوہستان میں اعلیٰ عہدے پر کام کرنے والے ایک پولیس افسر نے تسلیم کیا کہ کوہستان میں اب بھی حکومتی رٹ کمزور ہے۔ بتایا کہ جرگے کا مقامی افراد کا اعتماد اور قدیم روایت پر عمل پیرا ہونے سے بات پولیس تک نہیں پہنچتی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان معاملات میں زیادہ مخالفت کے سبب لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔
’ایک غلط کام پر پورا علاقہ یک زبان ہو، کوئی گواہ نہ ہو، شواہد نہ ہوں تو ایسے میں پولیس کیا کرے گی۔ عدالت تو شواہد پر فیصلہ کرتی ہے۔ کوہستان میں یہی ہو رہا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ کوہستان میں غیرت کے نام پر سب یک زبان ہیں۔ جب باپ بیٹوں کے ساتھ مل کر بیٹی کا قتل کرے اور ماں خاموش رہے، ایسے لوگوں کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے۔
’لڑکی کے قتل کے بعد چور قرار دیے گیے لڑکے کا بھی قتل کیا جاتا ہے جس پر لڑکے کے اہل خانہ بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ آج اہم اپنے لڑکے کے کی خاطر اختلاف کریں گے تو کل کو ان کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش سکتا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ کوہستان پسماندہ علاقہ ہے۔ شرح تعلیم انتہائی کم ہے۔ زیادہ تر لوگ محنت مزدوری یا کھیتی باڑی کرکے گزارہ کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس روایت کو ختم کرنے کے لیے شاید صدیوں کا وقت چاہیے۔