ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو

اتوار 3 دسمبر 2023
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

باجی کے موبائل فون پر ایک نامعلوم نمبر سے آنے والی کال مسلسل تیسری بار بج رہی تھی۔ باجی ایسی بے نام کالیں سننے سے اجتناب برتتی تھی لیکن اس بار وہ خود کو نہ روک سکی۔ فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک غیرمانوس لیکن نفیس مردانہ آواز کانوں سے ٹکرائی۔

جی فرمائیے کس سے بات کرنی ہے؟ باجی نے پوچھا۔

آپ سے۔ مردانہ آواز نے ایک لمحہ بھی توقف کیے بنا جواب دیا۔

جی بولیے۔ باجی نے کہا

آپ ثمرہ کی بڑی بہن بول رہی ہیں ناں؟ دوسری جانب سے سوال کیا گیا

جی! لیکن آپ کون بات کر رہے ہیں؟ اور ثمرہ کو آپ کیسے جانتے ہیں؟ باجی کی حیرانی اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت آواز سے عیاں تھی۔

باجی میں آپ کی امی کے ہی علاقے کا رہنے والا ہوں اور آج سے 11 سال پہلے میرے گھر والے ثمرہ کا رشتہ مانگنے آپ کے گھر آئے تھے۔ میرے لیے، لیکن ثمرہ کی آپ لوگوں نے بات کہیں اور طے کر دی تھی۔ مردانہ آواز میں اداسی در آئی تھی۔

آج سے 11 سال پہلے ثمرہ کے کتنے اور کس کس کے رشتے آئے تھے بھلا باجی کو کہاں یاد تھا سو جھلا کر فون بند کرنے کے لیے تمہید باندھی۔ بھلا اتنی پرانی بات مجھے کیونکر یاد ہو اور نا ہی اب ان باتوں کی کوئی ضرورت ہے۔

باجی پلیز فون بند مت کیجیے گا۔ صرف ایک بات کی تصدیق کرنی ہے کہ کیا واقعی ثمرہ کی شادی ٹوٹ گئی ہے؟ مردانہ آواز نے یکدم سے سوال داغا۔

آپ کو اس سے غرض؟ باجی نے غصے میں موبائل فون بند کردیا۔

ثمرہ ابھی 18 سال کی تھی کہ رشتوں نے زینب خالہ کا گھر دیکھ لیا تھا۔ زینب خالہ نے سسرال والوں کی خواہش میں 4 بیٹیوں کی لائن لگا دی تھی پھر کہیں جا کر پانچواں بیٹا ان کی کوکھ میں آیا تھا۔ پہلی بیٹی کو 18 سال میں بیاہ دیا تھا اور اب ثمرہ کی باری تھی جو جگت ’اللہ میاں‘ کی گائے مشہور تھی۔ کھلتی رنگت پر نکھرے خدوخال، سرو قد، متناسب جسامت والی ثمرہ کے ہمہ وقت سنجیدہ چہرے پر شاذونادر سجنے والی بے ساختہ ہنسی بڑی بھلی لگتی تھی۔

درجن بھر رشتوں میں قرعہ فال محلے کے ایک معتبر گھرانے کے چشم وچراغ کے نام نکلا۔ خوب دھوم دھڑکے کے ساتھ مہندی، شادی اور ولیمہ ہوئے اور ثمرہ سسرال سدھار گئی۔

ثمرہ کے سسرال میں گھر والوں کی موجودگی کے باوجود ہر طرف ایک عجیب ویرانی رچی بسی نظر آتی۔ جیسے کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہ ہو۔ شوہر کا رویہ بھی خاصا نپا تلا تھا۔ سسرالیوں کی بظاہر وسیع و عریض گھر کے مکین ہونے کے باوجود مالی حالت کافی خراب تھی جسے گھر والوں نے بڑی خوبصورتی سے چھپایا ہوا تھا۔ مالی حالت کو مستحکم کرنے کے بجائے گھر میں پیری فقیری کا چلن زوروں پر تھا۔ ثمرہ نے کسی کو اس قصے کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ یوں تو ثمرہ سدا کی خاموش طبیعت اور کم گو تھی لیکن شادی کے بعد اس کے مزاج میں بیزاری عود آئی تھی۔ کسی نے یا تو محسوس نہیں کیا یا پھر انجان بننے میں ہی عافیت سمجھی ہو۔

5 سال کے عرصے میں ثمرہ کی گود میں 2 بیٹے ہمک رہے تھے جو اسے زندگی کی طرف دوبارہ لوٹ آنے کی ترغیب دیتے تھے۔ اسے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے والدین کی جانب بار بار دیکھنا شرمندہ کرنے لگا تھا۔ جبکہ شوہر مکمل طور پر مریدی کے چکر میں پڑ کر ثمرہ کے جہیز کے زیورات تک پیر کو نذرانے کے طور پیش کر چکا تھا۔ انہی حالات میں ثمرہ تیسری بار پیٹ سے ہوئی لیکن غذائیت کی کمی اور ذہنی و جسمانی تشدد کی بنا پر مدت سے 2 ماہ پہلے مردہ بچی پیدا ہوئی تب کہیں اس کے گھر والوں پر عقدہ کھلا کہ حالات میں بہتری کی گنجائش اب موجود نہیں۔ یوں ثمرہ کو گھر بٹھا لیا گیا اور خلع کے لیے عدالت میں درخواست دائر کردی گئی۔

ثمرہ کی والدین کے گھر واپسی کے ساتھ ہی محلے بھر میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور ہوتے ہوتے شاہد کے کانوں تک بھی جا پہنچی جس کے رشتے کو 11 سال پہلے ٹھکرا دیا گیا تھا۔ شاہد نے اس کے بعد شادی کے متعلق سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔

ثمرہ کے گھر بیٹھنے کی تصدیق ہونے پر اس نے ثمرہ کی باجی سے رابطہ کر کے اپنا رشتہ دوبارہ بھیجنے کی استدعا کی۔

باجی مسلسل شاہد کو ٹالتی رہی کہ اب جلد بازی میں فیصلہ کرنا قطعی مناسب نہیں تھا لیکن شاہد اس بار موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا، سو باجی کو ہر دوسرے دن منانے کے واسطے فون کرتا اور ثمرہ کی جانب سے عائد کی ہوئی شرائط کو دل و جان سے پوری کرنے کی قسمیں کھاتا۔ آخرکار ثمرہ کے گھر والوں کے ہاں کرتے ہی بن پڑی۔

شاہد نے ثمرہ کی یک رنگی زندگی میں ’قوس و قزح‘ کے سب رنگ بھر دیے ۔ ثمرہ چونکہ 2 بیٹوں کی ماں ہونے کے ناطے مزید بچوں کی طلبگار نہ تھی جس پر شاہد نے سر تسلیم خم کیا اور اس کے دونوں بیٹوں کو باپ جیسی شفقت و محبت سے نوازنے لگا۔

ثمرہ اور شاہد کی جوڑی پورے محلے میں لیلیٰ مجنوں کے نام سے پہچانی جانے لگی اور وہ لوگ جو ثمرہ کی خلع پر سو سو باتیں بنا رہے تھے شاہد نے ان سب کے دل بھی موہ لیے تھے۔ پورا علاقہ شاہد کے اخلاص کا گرویدہ ہو چکا تھا۔ شاہد کو قدرت نے سریلی آواز سے نوازا تھا اور ہاتھ میں ذائقہ ایسا کہ آلو کی ترکاری بھی قورمہ سے زیادہ لذیذ ہوتی۔ جسکے جوہر وہ ہر تقریب میں ضرور دکھاتا۔

باجی کا من پسند گانا ’کبھی ہم خوبصورت تھے‘ اتنی خوبصورتی سے گاتا کہ نیرہ نور کی کوئل جیسی آواز کو پیچھے چھوڑ دیتا۔

حسین لمحے پر لگا کر اڑنے لگے، دیکھتے دیکھتے ان کی شادی کو 9 سال بیت گئے۔ ثمرہ ہمیشہ کہتی کہ شاہد کا پیار تو بونس ہے میرے لیے۔

اور پھر اچانک کرونا کی وبا نے پورے ملک کو اپنی نحوست میں جکڑ لیا تھا کچھ احتیاطی تدابیر نہ ہونے کے برابر تھیں دوسرا لوگوں نے اس جان لیوا وبا کو ہلکا بھی لیا۔ تمام روزگار زندگی کچھ عرصے کے لاک ڈاؤن کے بعد دوبارہ معمولات کے مطابق چل پڑے تھے۔

ثمرہ اور شاہد قریبی عزیز کی شادی سے کرونا اپنے ساتھ گھر لے آئے تھے۔ ثمرہ تو کچھ ہی دن میں ٹھیک ہوگئی لیکن شاہد چونکہ ذیابیطس کا مریض تھا تو اس کا مرض دن بہ دن بگڑتا رہا۔

باجی میں آپ کا ہمیشہ بہت احسان مند رہوں گا اگر اس دن آپ میرا فون نہ سنتیں تو شاید آج ثمرہ میری زندگی کا حصہ نہ ہوتی۔ شاہد فون پر باجی سے تھکی تھکی آوازمیں کہتا۔

آپ لاہور سے جلدی آجائیں پھر آپ کو کشور اور ادت نارائین کے خوب گانے سناؤں گا اور اپنے ہاتھ سے نئی ریسیپی والی ہانڈی بھی کھلاؤں گا۔

اور میرا پسندیدہ گانا؟ باجی فون پر اس کی توجہ بیماری سے موڑنے کی خاطر پوچھتی۔

باجی اس بار ایسی درد بھری آواز میں سناؤں گا کہ آپ کے آنسو نکل پڑیں گے۔

شاہد بس تم ٹھیک ہو جاؤ تو پھر خوب گانے اور مزیدار کھانے ہوں گے۔ باجی کا دل بھر آتا۔

لاہور میں بیٹھی باجی حالات کا اندازہ کیسے لگاتی جب کہ گھر کے افراد تک سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ شاہد کی صحت روز بروز کیوں گر رہی ہے۔

ثمرہ کے گھر والے شاہد کو کراچی کے بڑے سے بڑے اسپتال لے کر بھاگے۔ ہر اسپتال میں ہزاروں کرونا کے مریضوں کا تانتا بندھا ہوتا۔ ایسے میں ڈاکٹر بھی کیا کرتے جو کچھ سمجھ میں آتا دوا دارو کر کے مریض کو رخصت کرتے تاکہ اگلوں کی باری آئے۔

کیا قیامت کے دن تھے۔ ہر فون پر دل دہلتا کہ اب کس پیارے کے اچانک دنیا سے جانے کی اطلاع موصول ہوجائے۔ اب سمجھ آیا تھا کہ یہ ہوتی ہے جنگی صورتحال، جس میں کتنے ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف مریضوں کو اس وبائی مرض سے بچاتے ہوئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے۔

ذیابیطس کے سبب کرونا شاہد کے جسم و دماغ کو مسلسل کھوکھلا کیے جا رہا تھا۔ دوائیاں کوئی اثر نہیں دکھا رہی تھیں، 40 سال کا سرخ و سفید صحتمند شاہد 10 روز میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔

ثمرہ جس نے کبھی اپنے جائز حق کے لیے بھی آواز بلند نہ کی تھی اپنی زندگی کے ہر بڑے فیصلے پر اپنے بڑوں کے سامنے سر جھکاتی چلی آئی تھی، آج پھر قدرت کے سامنے بے بسی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔

ثمرہ مجھے میرے گھر لے چلو۔ شاہد نے ثمرہ سے درخواست کی۔

طبیعت خرابی کی وجہ سے ثمرہ شاہد کو اپنے والدین کے گھر لے آئی تھی۔

ثمرہ نے شاہد کاایک بازو اپنے کاندھے پر رکھا اور دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں حمائل کر کے اپنے چھوٹے سے مسکن کی جانب چل پڑی جو ایک گلی کے فاصلے پر تھا۔

گھر کے برآمدے میں داخل ہوتے ہی شاہد کے قدم لڑکھڑائے اور جسم نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ثمرہ اس کے ڈھیلے پڑتے بدن کا بوجھ سہار نہ پائی اور شاہد وہیں گر گیا۔

باجی صبح باورچی خانے میں ناشتہ بنانے میں سیل فون کی گھنٹی نہ سن پائی جو مسلسل بج رہی تھی۔

اماں ثمرہ خالہ کا فون ہے۔ باجی کی بڑی بیٹی نے فون ماں کو تھماتے ہوئے کہا۔

باجی نے آٹے سے سنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے فون کا اسپیکر آن کیا۔

باجی شاہد نہیں رہا۔ شاہد مجھے تنہا چھوڑ کر چلا گیا۔ وہ کیسے مجھے چھوڑ کر اکیلا جا سکتا ہے؟۔

نجانے ثمرہ کی ہذیانی چیخیں کیا کیا بین کر رہی تھیں لیکن موبائل فون سے باجی کو شاہد کی درد بھری آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ’ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے۔ ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp