اکشے کمار آخر کب تک ’مودی بھگت‘ کے فائدے اٹھائیں گے؟

اتوار 3 دسمبر 2023
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اکشے کمار نے کیا اب سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کی تیاری کرلی ہے؟  مودی جی کی خوشامد میں اب اور آگے کہاں تک جاسکتے ہیں؟

یہ سوالات ہر اُس شخص کے ذہن میں گونج رہے ہیں جو اکشے کمار کی ’مودی مدح سرائی‘  کو محسوس کر پا رہا ہے، جس کا خیال ہے کہ اکشے کمار فنکار ہوتے ہوئے مسلسل بھارتیا جنتا پارٹی کی طرف اپنا جھکاؤ کرتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اکشے کمار کی قربت بی جے پی سے کچھ زیادہ ہی ہوتی جارہی ہے۔ مودی جی کی تعریف اور توصیف میں کوئی دن بغیر وقفے سے نہیں گزارتے۔ ذہن پر زور ڈال کر یاد کریں اکشے کمار کا وہ انٹرویو جو انہوں نے نریندر موی کا لیا تھا۔ سوال تھے مودی جی آم کھاتے ہیں؟ اگر کھاتے ہیں تو کیسے؟ دل و جان سے فدا ہونے والے ایک پرستار کی جھلک نظرآتی تھی اکشے کمارکے سوالوں میں۔

مخالفین تو یہاں تک الزام لگاتے ہیں کہ اکشے کمار فلموں کے ذریعے بی جے پی کا ایجنڈا آگے بڑھا رہے ہیں۔ بالخصوص 2017ء میں  مودی جی نے بیت الخلا بنانے پر عوام پر زور دیا۔ اس سلسلے میں ایک مہم ’سوچالے بھارت مشن‘ بھی شروع کی تو یہ اکشے کمار ہی تھے جنہوں نے ’ٹوائلٹ ایک پریم کتھا‘ میں کام کرکے مودی جی کا ہاتھ بٹایا۔ ایک بار پھر مودی سرکار اور سماجی تنظیم  نے خواتین کے لیے سینٹری پیڈز کی آگاہی کے لیے مہم چلائی تو یہ اکشے کمار ہی تھے جنہوں نے 2018ء میں ’پیڈ مین‘  میں کام کیا۔ اسی طرح 2019ء میں جب انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کا چندریان مشن ناکام ہوا تو ہر جانب سے مودی حکومت پر تنقید کی گئی۔ لیکن اسی عرصے میں اکشے کمار کی ’مشن منگل‘ پیش کردی گئی۔ جس میں یہی باور کرایا گیا کہ ابتدائی ناکامی سے گھبرانا نہیں چاہیے، ایک نہ ایک دن یہ مشن کامیاب ہوگا۔ یوں مودی سرکار پر ہونے والی تنقید کا رخ موڑنے کے لیے اکشے کمار نے اپنی خدمات انجام دیں۔

اکشے کمار مودی اور بی جے پی کے عقیدت مند پہلے نہیں تھے بلکہ وہ ایک رومنٹک اور کامیڈین ہیرو کہلائے جاتے تھے۔ 2014ء میں نریندر مودی نے جب سے بھارتی وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو کچھ عرصے بعد ہی اکشے کمار نے پینترا بدلتے ہوئے ان کے منظورِ نظر بننے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے بھارتیا جنتا پارٹی مسلم اور پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیکھ کر اقتدار میں آئی تھی۔ اسی بنا پر اکشے کمار نے اب فلموں کے انتخاب میں پروپیگنڈا فلموں پر زیادہ توجہ دی۔ ان فلموں میں بھارتی ہندوؤں کے مسائل کو تو اجاگر کیا گیا لیکن کسی فلم میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کونمایاں نہیں کیا گیا۔

اب اگر آپ 2016ء میں نمائش پذیر فلم ’ائیر لفٹ‘ کا جائزہ لیں گے تو یہ عراق کویت جنگ کے پس منظر میں ہے۔ جس میں ظاہر یہی گیا کہ کویت میں صرف بھارتیوں پر بہت مظالم ڈھائے گئے اور ایک اکیلے ہیرو نے سینکڑوں بھارتیوں کو کویت سے اپنے دیس منتقل کرانے میں سر دھڑ کی بازی لگادی۔ فلم کے ذریعے عام بھارتیوں کے جذبات اور احساسات سے خوب کھیلا گیا۔ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ ’رستم‘ میں سچے واقعے کو موضوع بنا کر بھارتی بحریہ کا امیج بہتر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ 2021ء میں فلم ’بیل بوٹم‘ کے ذریعے را ایجنٹ بن کر اکشے کمار نے ایک بھارتی جہاز کو اغوا کاروں کے چنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد پیش کی۔ مقصد صرف یہ تھا کہ مودی جی کے اداروں پر عوام کا اعتما د بحال کیاجائے۔

اسی سال یعنی 2021ء میں اکشے کمار کی ’سوریا ونشی‘ نے نفرت اور زہریلے پروپیگنڈے کے تمام تر ریکارڈز توڑ دیے۔ پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف بننے والی اس نفرت آمیز تخلیق میں اکشے کمار نے یہ باور کرانے کی بھرپورناکام کوشش کی کہ پاکستان بھارت میں مداخلت کررہا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی حب الوطنی پر بھی اسی فلم میں سوال اٹھاکر ان کواور مشکوک بنا دیا۔ حقائق کو مسخ کرکے فلم میں شامل کیا گیا۔ فلم میں پاکستان کے خلاف نفرت اور شرانگیز پروپیگنڈا کیا گیا جس کا مقصد صرف اور صرف مودی حکومت کے بیانیے کو فروغ دینا تھا۔

اکشے کمار کی چاپلوسی کا یہ وار2022ء  میں بھی جاری رہا۔ جب انہوں نے ’سمراٹ پرتھو ی راج‘ میں کام کیا۔ فلم کے ذریعے افغان حکمران محمد خان غوری کوظالم اور بے رحم دکھانے پرایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا۔ ایک بار پھر تاریخی حقائق کو مسخ کرکے یہی تاثر دیا گیا کہ افغان بادشاہوں نے ہندوستان میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا تو سمرات پرتھوی راج ان کی راہ کی دیوار بنا۔ فلم کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف بھارتی ہندوؤں کو اشتعال دلایا گیا اور انہیں یہ بتایا گیا کہ ہندوستان کو غزنی کے حکمرانوں نے لوٹ کا مال سمجھا ہوا تھا۔ ایسے میں جب ابھی تک بابری مسجد کو شہید کرنے اور پھر عدالتی فیصلے کے زریعے اس کی اراضی کوہندوؤں کے حوالے کرنے پر مسلمان سراپااحتجاج ہیں۔ اکشے کمار کی ’رام سہتو‘ میں یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ بھارتی ہندو اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کرنے میں کس قدر جذباتی اور جوشیلے ہیں۔ زور اسی بات پر دیا کہ وہ اس سلسلے میں ایک انچ ٹکڑا بھی کسی کو نہیں دیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اکشے کمار نے زیادہ تر سچے کرداروں پر فلمیں کیں اور ان کے امیج کو بہتر کیا لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی مسلمان شخصیت نہیں جبکہ بھارت میں کئی ایسی مسلمان شخصیات گزری ہیں جنہوں نے غیر معمولی خدمات سے دنیا بھر میں منفرد اور اچھوتی مثال قائم کی۔ لیکن اکشے کمار جان بوجھ کر ان کرداروں سے دور ہی رہتے ہیں۔ اس وقت بھی ان کی 2 فلمیں ایسی ہیں جن میں وہ بھارتی فضائیہ کے افسر جبکہ دوسری میں وہ مراٹھا حکمرانوں کی داستان پیش کررہے ہیں۔

اکشے کمار کو ’مودی بھگت‘ تصور کیا جاتا ہے جن کے مودی جی سے براہ راست تعلقات ہیں۔ عالم یہ ہے کہ مودی جی  اکشے کمار کے بیٹے کے ساتھ خود سیلفی بناتے ہیں۔ یہی نہیں اکشے کمار متعدد انٹرویو میں مودی جی کو بھارت کی سب سے زیادہ متاثر شخصیت بھی قرار دیتے ہیں۔اب حال ہی میں جب اکشے کمار نے کینیڈا کی شہریت چھوڑی تو ان کے اس فیصلے کو خاصی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔  بیشتر کا کہنا ہے کہ اکشے کمار کا یہ قدم دراصل اگلے سال ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے کی ایک کڑی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اگر اکشے کمار یہ کام نہ کریں تو وہ اپنی شریک سفر ٹوئنکل کھنہ کو سیاست کے میدان میں اتار سکتے ہیں جن کے آنجہانی والد راجیش کھنہ تو سیاسی رہنما بھی رہ چکے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے اکشے کمار کہاں تک جاسکتے ہیں؟ پھر دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ان کامقابلہ کنگنا رناوٹ سے بھی ہے جو ’مودی بھگت‘ ضرورت سے زیادہ بنی ہیں۔ مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ فنکاروں کے درمیان بھی مودی جی کی چاپلوسی کرنے کی ایک جنگ چھڑی ہوئی ہے۔اکشے کمار جیسے اداکاروں کو کوئی یہ یاد دلانے پر آمادہ نہیں کہ فنکار بلا کسی غرض، نسل و فرق،  مذہب اور سیاسی وابستگی کے ایک سچا اور حساس فنکارہوتا ہے جس کی اصل پہچان یا شناخت اس کا فن ہوتا ہے ناں کہ کسی ایجنڈے کا پرچار کرنا اور کسی کا ترجمان بننا۔

 

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp