سابق صدرآصف علی زرداری نے 2008 میں اقتدار میں آنے کے بعد صدارتی اختیارات ختم کر کے ایک مرتبہ پھر پارلیمنٹ کواختیارات منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کے بعد اپریل 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی سمیت دیگر جماعتوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کر دیے اور وزیراعظم کو بااختیار کردیا۔
مزید پڑھیں
18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو بھی اختیارات منتقل کر دیے گئے تھے، تاہم اب یہ خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں کہ مسلم لیگ ن نے 18ویں ترمیم میں مزید ترامیم کرنے جا رہی ہے، لیکن واضح نہیں ہو رہا کہ 18ویں ترمیم میں مزید کیا ترامیم کی جائیں گی؟
18 ویں ترمیم کے رول بیک کی خبریں مکمل بے بنیاد ہیں، احسن اقبال
مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے سے متعلق کہا کہ ن لیگ کوئی ترمیم نہیں کرنے جا رہی، اس خبر میں بالکل کوئی صداقت نہیں ہے۔
ترامیم سے متعلق میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں مکمل بے بنیاد ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ مسلم لیگ ن نے 18 ویں ترمیم کو ووٹ دیا تھا، اس کو ختم کرنے کے لیے ہمارے زیر غور کوئی تجویز نہیں ہے، یہ خبربدنیتی کی بنیاد پر شائع کی گئی ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ ہماری منشور کمیٹی ابھی ابتدائی مشاورت کر رہی ہے لیکن ہم نے 18ویں ترمیم سے متعلق کسی سفارش کو حتمی شکل دی ہے نہ کوئی ایسی تجویز آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قومی سطح پراسمبلی ہے، صوبائی اسمبلیاں ہیں لیکن بلدیاتی نظام صحیح نہیں ہے، 18 ویں ترمیم کے ذریعے ہم نے قومی اسمبلی سے اختیارات صوبائی اسمبلی کو منتقل کیے لیکن وہ عوام تک منتقل نہیں ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبے اختیارات بلدیاتی اداروں کو منتقل کریں اورانہیں مکمل با اختیار بنائیں۔
مسلم لیگ ن بہت مضبوط بلدیاتی نظام لے کر آئے گی، احسن اقبال
احسن اقبال نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بلدیاتی انتخابات پارٹی بنیاد پر ہونا چاہییں تاکہ ہر پارٹی کو اجازت ہو کہ وہ لوکل باڈیزانتخابات میں حصہ لے، مسلم لیگ ن اپنے منشور میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے ایک بہت مضبوط نظام لے کرآ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 24 کروڑآبادی والے ملک میں جمہوریت کے منتخب 1200 یا 1400 ایم این ایز اور ایم پی اے ہیں۔
جمہوریت کی جڑیں عوام میں مضبوط کرنا چاہتے ہیں
اگر جمہوریت کا نظام مضبوط کرنا ہے تو ہمیں اس کے لیے 1 لاکھ بلدیاتی نمائندوں کی ضرورت ہو گی، جمہوریت کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوں گی تو عوام کے مسائل نچلی سطح پر ہی حل ہوں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شہلا رضا نے مسلم لیگ ن کی جانب سے 18ویں ترمیم کو ختم کرنے سے متعلق سوال پرکہا کہ پیپلز پارٹی کو پہلے سے ہی 18ویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے پر تحفظات ہیں۔
18 ویں ترمیم میثاق جمہوریت کے تحت کی گئی تھی
ان کا کہنا تھا کہ جب میثاق جمہوریت ہوا تھا تواس میں بہت ساری باتیں طے ہوئی تھیں جن کے تحت ہم نے 18ویں ترمیم کی تھی۔
دسمبر 2018 میں تمام اختیارات منتقل ہونا تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا، اب بھی صحت اور تعلیم کا شعبہ وفاق کے پاس ہی ہے، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں بہت سے معاملات کا تعین آبادی اور غربت کی شرح کو مد نظر رکھ کر کیا گیا تھا لیکن صرف پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ ہی این ایف سی پرعمل درآمد کروا سکی۔
پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ اور پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں این ایف سی پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا حتیٰ کہ ن لیگ نے تو ججز کی تعیناتی کے عمل میں بھی رد وبدل کیا۔
آئینی شق 62 اور 63 کے خاتمے میں نواز شریف رکاوٹ بنے
شہلا رضا نے انکشاف کیا کہ جس وقت 18ویں ترمیم کی جا رہی تھی تو پیپلز پارٹی نے 62، 63 کو ختم کرنے کی بات کی تو میاں نواز شریف نے کہا وہ اٹھ کے چلے جائیں گے اگر ایسا کیا گیا تو۔
شہلا رضا نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نیب کو بھی ختم کرنے کی بات کر رہی تھی لیکن ایسا بھی نہ ہو سکا اور بعد میں نیب کو ختم نہ کرنے والوں نے خود سب سے زیادہ اسے بھگتا۔
عوامی مفاد میں کی گئی ترمیم کی حمایت کریں گے، شہلا رضا
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن اگرعوامی مفاد میں کوئی ترمیم کرنا چاہتی ہے تو بتائے ہم سب ساتھ مل کرآئین میں ترمیم کریں گے، اگر ن لیگ 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بات کرتی ہے توایسا کرنا آسان نہیں کیوں کہ یہ 2 تہائی اکثریت سے منظورہوئی تھی۔ ایسا کیا گیا تو چھوٹے صوبوں میں بے چینی بڑھے گی۔
کیا 18ویں ترمیم سے عوام کو کوئی فائدہ ہوا ہے؟ اس حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ 18ویں ترمیم سے قبل وفاق عوام کے لیے ولن تھا اور اب صوبے ولن بن گئے ہیں۔
18 ویں ترمیم سے صوبوں کی شکایات کا ازالہ ہوا، سہیل وڑائچ
ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم سے صوبوں کو ان کے حقوق ملے تھے اس سے صوبوں کو وفاق سے جو شکایات تھیں ان کا بہت حد تک مداوا ہوا اور ابھی بھی 18ویں ترمیم کی بہت ساری چیزوں پرعمل درآمد کیا جانا باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی بجائے اس میں کی گئی ترامیم پر مزید عمل درآمد ہونا چاہیے، اگر اس میں کوئی ابہام رہ گیا ہے تو اس کو دور کیا جاناچاہیے لیکن اس کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
سہیل وڑائچ نے مزید کہا کہ 18ویں ترمیم سے جو کچھ صوبوں کو دیا جا چکا ہے وہ اچھا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کا عوام کو فائدہ کب ہونا ہے۔
صوبوں سے فنڈز اور اختیارات ضلعی سطح تک منتقل ہونے چاہییں
ان کا کہنا ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ فنڈزاور اختیارات ملے، لیکن جو اختیارات صوبوں سے نیچے ضلعی سطح تک منتقل ہونے تھے وہ نہیں ہوئے۔
کوئی لوکل فائنانس کمیشن نہیں بنایا گیا، اس ترمیم کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ مرکز سے صوبے تک اور صوبے سے ضلعی سطح تک اختیارات پہنچائے جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے مرکز ولن ہوتا تھا اب صوبہ ولن ہو گیا ہے۔