مولانا فضل الرحمان جنوبی وزیرستان سے الیکشن جیت پائیں گے؟

جمعرات 7 دسمبر 2023
author image

شہریار محسود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

الیکشن فروری میں ہو رہے ہیں یا نہیں لیکن سیاسی جماعتوں اور لیڈر شپ نے شکوک و شبہات کے سائے میں الیکشن کے لیے صف بندیاں شروع کر دی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر کی دو نشستوں کو ضم کر کہ ایک سیٹ بنا دی گئی ہے جس کو سیاسی اور سماجی حلقے بڑا نقصان قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر یہ خبرچل رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان این اے 42 جنوبی وزیرستان اپر اور لوئر کی نشست سے الیکشن لڑیں گے۔ اگر جنوبی وزیرستان اپر کے 2013 اور 2018 کے الیکشن کے نتائج کو مدنظر رکھا جائے تو مولانا صاحب کے لیے بظاہر یہاں سے الیکشن لڑنا زیادہ آسان رہے گا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مولانا صاحب نے زمینی حقائق کو پارٹی کارکنان کی نظروں سے دیکھا ہے اور ہماری کوشش ہو گی کہ اپنی باتوں کے ثبوت کے لیے ان فگرز کے حوالے دیے جائیں جس کے بنا پر جے یو آئی اس سیٹ کو محفوظ سمجھتی ہیں۔

2013 کے الیکشنز میں جنوبی وزیرستان محسود حلقے سے مظبوط امیدوار بریگیڈیئر ریٹائرڈ قیوم شیر محسود اور پاکستان تحریک انصاف کے دوست محمد محسود تھے۔ آپریشن راہ نجات کی وجہ سے علاقہ بند تھا اور الیکشن ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں منعقد کیے گئے۔ اس دن ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے پولنگ اسٹیشن پر اتنے زیادہ لوگ آئے تھے کہ انتظامیہ کو گیٹ بند کرنا پڑا تھا۔ ملک کے کونے کونے سے آنے والے لوگوں میں اکثریت ذاتی خرچے پر آئے تھے کیونکہ لوگ بدترین حالات کے بعد امن اور تبدیلی کے لیے ترسے ہوئے تھے لیکن وہ اس تبدیلی میں اپنا حصہ نہیں ڈال سکے اور 80 فیصد ووٹروں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا کیونکہ ان لوگوں کے ساتھ تیکنیکی کھیل کھیلا گیا۔

پولنگ اسٹیشن جانے کے بعد وہاں تعینات عملہ شناختی کارڈ چیک کرکہ بتا دیتا تھا کہ آپ کا ووٹ اس فہرست میں موجود نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کو یقین ہوتا کہ ووٹر اسی امیدوار کو ووٹ کاسٹ کرنے والا ہے جس کو جتوانا ہے تو فوراً ووٹ نمبر مل جاتا اور پلک جھپکنے میں ووٹ کاسٹ بھی ہو جاتا۔ بطورِ وزیرستانی ووٹر، خود میرا ووٹ مجھے نہیں ملا تھا۔ بعد میں عملے میں موجود کسی بندے نے پہچان لیا تھا اور میرے جانے لے بعد مجھے واپس بلایا گیا کہ آپ کا ووٹ یہاں تھا غلطی سے پتہ نہیں چلا۔ بہرحال نتائج سامنے آئے تو جے یو آئی کے مولانا جمال الدین نے 3468 ووٹ لیکر پہلی پوزیشن حاصل کی۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ قیوم شیر محسود کو 3066 ووٹ ملے جبکہ دوست محمد محسود نے 2454 ووٹ حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

اب لاکھوں کے رجسٹرڈ ووٹرز میں سے جیتنے والا امیدوار 34 سو ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تو الیکشن کے شفاف ہونے پر کوئی یقین کرے گا؟ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال تھا کہ جمال الدین صاحب کی جیت ضروری ہو سکتی ہے لیکن بریگیڈیئر ریٹائرڈ قیوم شیر محسود کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب بالکل سادہ ہے کہ 2013 سے 2018 تک محسود علاقے میں بہت کچھ ہوا۔ لوگ لاپتہ ہوئے، ماورائے عدالت قتل ہوئے، علاقے کی ترقی کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھی، ایم این اے قومی اسمبلی میں بات بھی نہیں کر سکتے تھے بلکہ حامد میر جیسے صحافیوں کے شو میں ان کو جان بوجھ کر بٹھایا گیا تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ اس علاقے کے لوگوں کے ایم این اے کا یہ لیول ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں باقی لوگ کیسے ہوں گے؟

2018 الیکشنز ایک بار پھر 2013 کی جھلکیاں ثابت ہوئیں۔ 2013 کے الیکشن میں ووٹر لسٹوں میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے بعد یہاں کے نوجوانوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی خاص دلچسپی باقی بھی نہیں رہی تھی مگر پھر بھی کافی تعداد میں ووٹرز کو اپنا ووٹ فہرست میں نہیں ملا اور یہ سہولت جیتنے والی پارٹی کو ہی میسر رہی۔

2018 کے الیکشن میں مولانا جمال الدین کو 7794 ووٹ حاصل کرنے پر کامیاب قرار دیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے دوست محمد محسود نے 6606 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ قیوم شیر محسود 6075 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے۔

2018 الیکشنز کے نتائج کے حوالے سے مزید کچھ نہیں کہنا لیکن صرف اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ جیتنے والے امیدوار نے 8 ہزار سے بھی کم ووٹ حاصل کر کے سیٹ جیتی تھی۔

اب آتے ہیں جنوبی وزیرستان لوئر کے حلقے کی طرف تو وہاں 2013 میں مسلم لیگ ن کے غالب خان کامیاب ہوئے تھے جبکہ 2018 میں علی وزیر نے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان دونوں الیکشنز میں جے یو آئی کے امیدوار مولانا عبد المالک کو 2018 کے الیکشن میں تیسری پوزیشن ملی تھی جبکہ 2013 کے الیکشن میں پوزیشن نہ ہونے کے برابر تھی۔

اب آتے ہیں اس وقت کی عوامی رائے کی طرف تو 2018 کے بعد وزیرستان کے 3 حلقوں سے 3 امیدوار کامیاب ہوئے۔ شمالی وزیرستان سے محسن داوڑ، جنوبی وزیرستان لوئر سے علی وزیر اور جنوبی وزیرستان اپر سے مولانا جمال الدین۔ تینوں ممبران قوم اسمبلی کے سیاسی اکاؤنٹ میں مختلف چیزیں پڑی ہیں جو یہاں عوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ قوم کے لئے آواز اٹھانے کے حوالے سے محسن داوڑ اور علی وزیر مولانا جمال الدین کے مقابلے میں کافی آگے ہیں مگر بد قسمتی سے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی مولانا جمال الدین مقابلے سے باہر ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے سابقہ فاٹا کے ممبران قومی اسمبلی کے لیے اربوں روپے جاری کیے۔ شمالی وزیرستان میں محسن داوڑ نے اس کا بہترین استعمال کیا اور کافی کام کیے۔ اسی طرح جنوبی وزیرستان لوئر میں علی وزیر نے بھی ان فنڈز کا استعمال کیا اور کافی کام گراؤنڈ پر ہوئے ہیں اور ہورہےہیں لیکن مولانا جمال الدین پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اربوں روپے پارٹی کارکنان میں تقسیم کیے جس میں مبینہ طور پر شدید غبن بھی ہوا ہے۔ اس حوالے سے جمال الدین کے خلاف حیسوب دہ وشی (حساب دیا جائے) کے نام سے عوامی مہم بھی چلائی گئی جس کی وجہ سے حکومت نے تحقیقات کا حکم بھی جاری کیا جو تا حال فائلوں تک محدود ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ اگر مولانا فضل الرحمان صاحب یہاں سے الیکشن لڑتے ہیں تو کیا وہ کامیاب ہو پائیں گے؟ اس وقت زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں کیونکہ حلقہ ایک ہونے کی وجہ سے جے یو آئی کی پوزیشن مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر نتائج 2013 اور 2018 کے الیکنشنز کی طرح ‘مینیج’ کئے جاتے ہیں تو پھر شاید بات بن جائے۔ فی الوقت تو علی وزیر کی پوزیشن بظاہر مظبوط ہے لیکن اگر تحریک انصاف کے امیدوار کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملتا ہے تو تحریک انصاف کا بھی بڑا ووٹ بینک سامنے آ سکتا ہے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر تحریک انصاف اگر علی وزیر جیسے امیدوار کی حمایت کرتی ہے تو مولانا صاحب کو یہاں سے الیکشن لڑنے پر سوائے پشیمانی کہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ تحریک انصاف کی طرف سے علی وزیر کی حمایت کے امکانات البتہ کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف نے 2018 کے الیکشن میں علی وزیر کے مقابلے میں اپنے امیدوار سابقہ ایم پی اے نصیراللہ وزیر کو دستبردار کرانے کا دعویٰ کیا تھا مگر علی وزیر نے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ پی ٹی آئی سے اس حوالے سے کوئی ڈیل ہوئی تھی۔ سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے آج کے دوست کل دشمن اور دشمن کل دوست بن سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان کے یہاں سے الیکشن لڑنے کو تا حال صرف سرسری بات قرار دیا جا سکتا ہے اس کے باوجود کہ پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے لیکن اگر وہ جنوبی وزیرستان سے لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو زمینی حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا صاحب غلط فیصلہ کرنے والے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

عالمی مقابلہ حسن سے واک آؤٹ کرنے والی فاطمہ بوش مس یونیورس 2025 کا تاج لے اڑیں

لاہور  سے مختلف سیاسی رہنماؤں نے استحکامِ پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی

وفاقی آئینی عدالت میں سائلین کے لیے انفارمیشن اور آئینی ڈیسک قائم

صوبہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں آج عام تعطیل کا اعلان

اسکولوں میں بچوں کے موبائل فون کے استعمال پر پابندی عائد

ویڈیو

شیخ حسینہ واجد کی سزا پر بنگلہ دیشی عوام کیا کہتے ہیں؟

راولپنڈی میں گرین انیشی ایٹیو کے تحت الیکٹرو بس سروس کا باضابطہ آغاز

پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟

کالم / تجزیہ

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت

افغان، بھارت تجارت: طالبان ماضی سے کیوں نہیں سیکھ پا رہے؟