میاں نواز شریف کے وکلا کو اختیار دیا گیا کہ وہ جج ارشد ملک کے خلاف درخواست پر اصرار کریں گے یا احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف میرٹ پر بحث کریں گے تو انہوں نے دوسرا آپشن چن لیا۔
دسمبر 2018 میں احتساب عدالت نے العزیزیہ مقدمے میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا سنائی تو اس کے بعد 6 جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی ویڈیو دکھائی گئی جس میں مرحوم جج مبینہ طور پر کسی دباؤ کے زیراثر میاں نواز شریف کو سزا سنانے کا اعتراف کر رہے تھے۔
اس پریس کانفرنس کے ٹھیک ایک سال بعد 3 جولائی 2020 کو لاہور ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا اور اس سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو ایک بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو کی وجہ سے مسلم لیگ نواز کے کارکن ان کو بلیک میل کر رہے تھے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو اپنے پیرنٹ ڈیپارٹمنٹ واپس لاہور ہائی کورٹ بھجوا دیا تھا جہاں لاہور ہائی کورٹ کے 7 ججوں پر مشتمعل انتظامی کمیٹی نے انہیں عہدے سے برطرف کر دیا۔ جبکہ 4 دسمبر 2020 کو ارشد ملک کورونا وائرس کے باعث اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
جج ارشد ملک مقدمہ کئی سال سیاسی منظر نامے پر چھایا رہا
جج ارشد ملک کے مبینہ اعترافی ویڈیو بیان کی روشنی میں پاکستان مسلم لیگ نواز ایک طرف سیاسی طور پر ایک بیانیہ بنایا کہ میاں نواز شریف کو ملنے والی سزائیں قانون کے تحت نہیں بلکہ کسی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں سنائی گئیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف نے اس ویڈیو کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا۔ سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں میاں نواز شریف نے استدعا کی تھی کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کے تناظر میں احتساب عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے لیکن اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ کہتے ہوئے درخواست مسترد کر دی تھی کہ اس فیصلے کے خلاف اپیل چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
میاں نواز شریف کا جج ارشد ملک کے خلاف درخواست کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ اسٹیل مل مقدمے میں میاں نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ اب وہ جج ارشد ملک کے خلاف اپنی درخواست پر اصرار نہیں کریں گے کیونکہ جج صاحب وفات پا چکے ہیں اور اب وہ چیزیں ثابت نہیں کی جا سکتیں جو اس وقت کی جا سکتی تھیں۔ اس پر عدالت نے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے میرٹ پر مقدمہ سننے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے انہیں اختیار دیا کہ اگر وہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کو لے کر العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں دیے گئے فیصلے کی بنیاد کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں تو معاملہ ایک بار پھر احتساب عدالت کو بھجوایا جا سکتا ہے۔ اس پر میاں نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ وہ جج ارشد ملک کے خلاف ویڈیو کی بنیاد پر جو درخواست دائر کی گئی تھی اس پر اصرار نہیں کریں گے۔
اپیل دراصل ٹرائل کا تسلسل ہوتی ہے، عمران شفیق
احتساب عدالت میں میاں نواز شریف کے مقدمات میں نیب کی جانب سے پیش ہونے والے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ میں اپیل دراصل ٹرائل ہی کا تسلسل ہوتی ہے اور اپیل میں وکلا سے شہادتیں پڑھنے کو کہا جاتا ہے جن پر بحث ہوتی ہے کہ آیا یہ شہادتیں قانون کے مطابق ریکارڈ کی گئی تھیں یا نہیں اور ان شہادتوں کی بنیاد پر جو فیصلہ دیا گیا وہ قانونی طور پر درست تھا یا نہیں۔ اس مقدمے میں جج ارشد ملک کا فیصلہ موجود ہے اور شہادتیں بھی موجود ہیں۔ اب اگر اس مرحلے پر یہ مقدمہ دوبارہ سے احتساب عدالت کو بھجوایا جاتا ہے تو اس کے فیصلے میں کافی وقت لگ سکتا ہے لیکن چونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے سارا ریکارڈ موجود ہے تو اس کو دیکھ کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
میرٹ پر فیصلہ میاں نواز شریف، ہائی کورٹ اور عدلیہ کے لیے بہتر ہے، حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے وائس چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے ایون فیلڈ کا فیصلہ آیا تھا اس سے اچھا تاثر نہیں گیا اور میرٹ پر فیصلہ میاں نوازشریف اور عدلیہ کے تاثر کے لیے اچھا ہے۔
حسن رضا پاشا نے کہا کہ جج ارشد ملک والے معاملے میں مسلم لیگ نواز اور جج صاحب دونوں بدنام ہو رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جج صاحب کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور ابھی ان کی سروس اپیل زیر سماعت تھی کہ ان کا انتقال ہو گیا اور اصولی طور پر اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ ویڈیو درست تھی یا نہیں لیکن وہ معاملہ اب شاید کسی اور وقت کے لیے اٹھا دیا گیا ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ایگزیکٹو کمیٹی کا کہنا ہے کہ تمام ریکارڈ اور شہادتوں کو دیکھنے کے بعد اگر ہائی کورٹ فیصلہ کرتی ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔