تاریخ میں شاید پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ایک طویل انتظار کے بعد چاہتے نہ چاہتے ہوئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ مگر اس پر کوئی سیاسی جماعت خوش نظر نہیں آتی۔ پاکستان پیپلز پارٹی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت کررہی ہے۔ مسلم لیگ نواز کچھ حد تک عوام سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے کہ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے کہ وہ مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل نہ کرپائے۔ پیپلز پارٹی نوازشریف کو نشانہ بنائے ہوئے ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے بن چکے ہیں اور ان کی جماعت کو اقتدار میں لانے کی لیے تمام تر کوششیں کی جارہی ہیں۔
ادھر مختلف جماعتیں کئی بہانے بنا رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمان جاننا چاہ رہے ہیں کہ کیا خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن وامان کی خراب تر صورت حال کے پیش نظر الیکشن منعقد ہونے چاہییں؟ حالاں کہ وہ مسلم لیگ نواز کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے پر رضامند ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اتحاد الیکشن کے بعد بھی جاری رہے گا۔ خیبر پختونخواہ کے گورنر آئے روز بیانات دے رہے ہیں کہ صوبے میں دہشت گردی اور امن وامان کی مخدوش صورت حال میں الیکشن ممکن نہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ اور چند دیگر جماعتیں ایک بار پھر حلقہ بندیوں پر اعتراضات لگا رہی ہیں اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حلقہ بندیاں دوبارہ کرائی جائیں۔ چند حلقوں میں مسلم لیگ نواز بھی کہہ رہی کہ حلقہ بندیاں ٹھیک نہیں ہوئیں اور وہ الیکشن کمیشن سے رابطہ کرے گی۔
وزارت خزانہ نے حال ہی میں انتخابات کی مد میں الیکشن کمیشن کو 17 ارب روپے کے فنڈز جاری کیے ہیں اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کے باعث تقریبا پونے 3 لاکھ کے قریب فوجی دستوں کی تعیناتی کی درخواست کردی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں کسی قسم کی تاخیر نہیں چاہتا تاہم سرحدوں کی صورتحال کے پیش نظر وزارت داخلہ کے بقول اتنی نفری فراہم کرنا ممکن نہیں۔
اگلے چند روز میں الیکشن شیڈول جاری ہوتے ہیں ملک بھر میں انتخابی گہما گہمی شروع ہونے کا امکان ہے جو تاحال ماند پڑی ہے۔ چند امیدوار اپنے متوقع حلقوں میں پہنچ چکے ہیں اور الیکشن مہم کا آغاز بھی کرچکے ہیں۔
تمام سیاسی جماعتیں خوشی خوشی الیکشن میں جانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اسٹیبلشمنٹ معیشت کو ٹھیک کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے اور نگراں حکومت بالخصوص پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی جس پھرتی سے منصوبوں کی تکمیل میں لگے ہیں اس سے لگتا ہی نہیں کہ وہ نگراں وزیراعلیٰ ہیں۔ ایسا تاثر بھی مل رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں الیکشن ملکی مسائل کا حل نہیں لہٰذا پہلے معیشت ٹھیک کر لی جائے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ الیکشن کے انعقاد سے ملکی اور بین القوامی سطح پر بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہوگا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو گا اور معیشت کی سمت درست ہوگی۔ میڈیا میں نامور صحافی اشارے دے رہے ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ کہیں کچھ لوگ ضرور یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو تحریک انصاف سے خوف ہے کہ کہیں ان کا نوجوان ووٹر الیکشن کے روز کایا نہ پلٹ دے اور یہ انجانا خوف تمام جماعتوں پر طاری ہے۔ پیپلز پارٹی کچھ حد تک تحریک انصاف کو کسی خاطر میں نہیں لا رہی۔ حال ہی میں آصف زرداری نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ الیکشن میں کوئی سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کرسکے گی اور تمام جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گیں۔
ووٹر اور بیشتر امیدوار الیکشن میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے؟ پچھلے چند سال میں ملک کی سیاسی صورت حال نے ووٹر کو بہت مایوس کیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کسی جماعت کے پاس ملکی مسائل کا کوئی فوری حل موجود نہیں اور انہیں یہ بھی لگتا ہے کہ اگلے کئی سال تک ملکی حالات ٹھیک ہونے والے نہیں۔ تو الیکشن انہیں کیا دے سکتے ہیں۔
سیاستدان عدم دلچسپی شاید اس لیے ظاہر کر رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ اپنا کردار ضرور ادا کرے گی اور زیادہ تر حلقوں میں اسی کے حمایت یافتہ امیدوار ہی کامیاب ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹیبلز اسی جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں جسے اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔ لحاظہ انہیں پھر انتخابات میں بہت زیادہ جدوجہد کرنے یا پیسہ لگانےکی ضرورت نہیں۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ جس جماعت سے انہیں سب سے زیادہ ڈرہے اسے یا تو الیکشن سے باہر رکھا جائے گا یا پھر ان کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے میں خاصی مشکلات کا سامنا رہے گا۔