نگران حکومت نے ملک بھر سے افغان تارکین وطن کے انخلا کا فیصلہ کیا، جس کے لیے رضا کارانہ طور پر افغان باشندوں کو وطن واپسی کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، تاہم حکومتی فیصلے پر پاک افغان سرحدی شہر چمن میں لغڑی (دیہاڑی دار) اتحاد کی جانب 21 اکتوبر کو پاسپورٹ پر آمد و رفت کی شرط کو ختم کرنے کے مطالبے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا جو دھرنے کی شکل اختیار کرگیا۔
چمن کے رہائشیوں کا شدید استحصال ہو رہا ہے
دھرنے کے منتظم اور لغڑی اتحاد کے جنرل سیکرٹری حوصلہ خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے افغانستان اور پاکستان میں آمد رفت کے لیے پاسپورٹ کو لازمی قرار دیا جس کی وجہ سے چمن کے رہائشیوں کا شدید استحصال ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چمن کے متعدد افراد کی رشتے داریاں، کاروبار سمیت آبا و اجداد کی قبریں بھی افغانستان میں ہیں۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کی تعداد میں لغڑی(دیہاڑی دار مزدور) کام کاج کے لیے چمن کا رخ کرتے تھے۔ تاہم حکومتی پالیسی کے باعث اب ہمیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے۔
قندھار سے کوئٹہ پاسپورٹ کی شرط ختم کی جائے
حوصلہ خان نے بتایا کہ حکومت سے پاسپورٹ ختم کرنے کے مطالبے پر کئی مذاکرات ہوئے جو بے نتیجہ رہے، کیونکہ حکومت ہر صورت میں پاسپورٹ کی شرط نافذ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی فیصلے کی وجہ اسپن بولدک اور چمن کے باسیوں کی اپنے رشتے داروں سے ملاقات نہیں پا رہی۔
حوصلہ خان کا کہنا تھا کہ ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ قندھار سے لیکر کوئٹہ تک پاسپورٹ کی شرط کو ختم کرکے واپس تذکرے کو بحال کیا جائے۔
چمن میں معمولات زندگی بھی متاثر
لغڑی اتحاد کے 50 روز سے جاری احتجاجی دھرنے کے باعث چمن میں معمولات زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ چمن کے مقامی تاجر امان اللہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنے کے باعث صوبے میں تجارتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ چمن کے باشندے صرف اس ایک مسئلے کے حل کے لیے روزانہ احتجاج میں شرکت کرتے ہیں، ایسے میں درآمدت و برآمدات سمیت ہر قسم کا کاربار ویران ہو گیا ہے۔
مزید پڑھیں
تاجر امان اللہ کے مطابق ماضی میں جو تاجر روزانہ کی بنیاد پر 20 سے 30 ہزار روپے کما لیتا تھا اب وہ ہزار سے 2 ہزار روپے ہی گھر لے کر جاتا ہے، کیونکہ ماضی میں افراد کی ایک کثیر تعداد افغانستان سے آیا کرتی تھی جو روزانہ کی بنیاد پر بنیادی ضروریات سمیت دیگر اشیا کی خرید و فروخت کرتے تھے، ایسے میں کاروبار بہتر تھا تاہم اب ویسی صورت حال نہیں ہے، جس کی وجہ سے مشکلات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ دھرنے کے سبب صحت اور تعلیم سمیت کئی شعبے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔
ہر شعبہ ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے چمن کے مقامی صحافی ستار خوندئی نے بتایا کہ دھرنے کے باعث چمن میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔کاروبار، تعلیم، صحت سمیت ہر شعبہ ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ جبکہ شہری بھی ایک طویل عرصے سے اپنے سرحد پار رشتے داروں سے نہیں مل پائے۔
صحافی ستار خوندئی کے مطابق دھرنے کو ختم کرنے کے لیے کئی حکومتی وفود چمن پہنچے تاہم دھرنے کے شرکا اپنے مطالبات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ تاہم حکومت سے دھرنا ختم کرنے سے متعلق سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب نگران صوبائی وزیر اطلاعات بلوچستان جان اچکزئی بارہا اپنے بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پاسپورٹ رجیم پر کوئی سمجھتا نہیں کیا جائے گا۔