سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنی سمت کھوبیٹھی ہیں، محض اقتدار کی خواہش مسائل کا حل پیش نہیں کرتی، ہر کوئی سیاست کی بات کرتا ہے لیکن ملک کی بات کوئی نہیں کررہا، اگر اسٹیبلشمنٹ، فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں نے مل بیٹھ کراصلاحات نہیں کیں تو ملک کے حالات مزید بگڑ جائیں گے۔
جمعہ کو ایک نجی ٹی وی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اب ملکی حالات میں لوگوں کو آزمانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ 2018 میں ہم نے بجٹ بنایا تو اس میں 15 سو ارب روپے کا سود تھا اور اب 2024 کے بجٹ میں جو تخمینہ لگایا گیا ہے اس میں ساڑھے 9 ہزار ارب روپے کا سود ہو گا۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں دفاعی بجٹ 17 سو ارب روپے تھا اور اب 2024 کے بجٹ میں 22 سو ارب روپے ہو گا، دفاعی بجٹ میں 40 فیصد اضافہ ہوگا جب کہ سود میں 6 گنا اضافہ ہوگا۔
سیاسی جماعتیں سیاست کی بات تو کرتی ہیں ملک کی بات کوئی نہیں کر رہا
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے حالات کسی صورت مستحکم نہیں ہیں، اس لیے الیکشن سے پہلے ہی تمام فریقین مل بیٹھیں اور آگے کے راستے کا تعین کر لیں، اس وقت تو سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کی بات تو کر رہی ہیں لیکن ملک کی بات آج تک کسی نے نہیں کی ہے۔
اقتدار برائے اقتدار کی سیاست کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اقتدار برائے اقتدار کی سیاست ملک کو کوئی فائدہ نہیں دے گی، ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا، میں اس موجودہ سیاست کا حصہ اسی لیے نہیں بننا چاہتا، اس لیے ان انتخابات میں بھی حصہ نہیں لوں گا۔ جس مقصد کے لیے یہ الیکشن ہو رہا ہے میں اس مقصد کے لیے کسی صورت الیکشن نہیں لڑوں گا۔ میرے حلقے میں مریم نواز تو نہیں نواز شریف کے چاہنے والے زیادہ ہیں وہ الیکشن لڑسکتے ہیں۔
موجودہ حالات میں الیکشن کسی معاملے کا حل نہیں
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے حالات غیر معمولی ہیں، ملک کی تینوں بڑی جماعتیں اپنی سمت کھو بیٹھی ہیں، سب اقتدار میں رہے لیکن کوئی کام نہیں کیا۔ جس نہج پرآج سیاست پہنچ گئی ہے میں الیکشن کو کسی معاملے کا حل نہیں سمجھتا۔ میں نے سمجھا کہ اس خرابی کا حصہ نہ ہی بنوں تو بہتر ہے، اس لیے سیاست کو خیر آباد نہیں کہہ رہا بل کہ حالیہ الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتا۔ الیکشن کے بعد دیکھوں گا کہ سیاست کون سا رخ اختیار کرتی ہے۔ ملک میں مزید پارٹیاں تو بنیں گی۔
پارٹی نے شوکاز نوٹس جاری کیا تو اس کا جواب دے دوں گا
انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز کسی اور پارٹی میں نہیں جائیں گے، صوبائی ٹکٹوں پر اکثر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کے دانیال عزیز یا احسن اقبال کا کیا معاملہ ہے۔ میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا کہ پارٹی مجھے شوکاز نوٹس جاری کرے۔ پارٹی نے اگر شوکاز نوٹس جاری کیا تو اس کا میں جواب دے دوں گا۔
نواز شریف کے خلاف مقدمات جعلی تھے
شاہد خاقان عباسی سے پوچھا گیا کہ ’نواز شریف نے اپنے بیانیے میں ملک واپس آنے کے بعد پھر تبدیلی لائی ہے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ’میں سب کچھ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘ اور آج انہوں نے پھر یہ کہہ دیا ہے کہ ’ ہم دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی چاہتے ہیں‘ تو جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس حقیقت کو دیکھنا چاہیے کہ نواز شریف کے خلاف مقدمات جعلی تھے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جس فیصلہ میں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا تھا وہ ابھی تک برقرار ہے اس کی درستی بھی کی جانی ضروری ہے۔ جب آپ ماضی پر نظر ڈالتے ہیں، بہت افسردگی ہوتی ہے، جن لوگوں نے ایسے کام کیے ہوتے ہیں ان کی بھی پوچھ گیچھ ہونی چاہیے، لیکن میں نواز شریف کی اس بات سے متفق ہوں کہ ان معاملات کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
نواز شریف کسی ڈیل کے تحت نہیں آ ئے، وہ ناانصافی کا ازالہ چاہتے ہیں
ایک اور سوال کے جواب میں شاہد خاقان نے کہا کہ ہر بات بیانیہ نہیں ہوتا، بعض بیانیہ موقع کی مناسبت سے دیا جاتا ہے۔ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ جب تک احتساب نہیں ہو گا ملک کے حالات آگے نہیں بڑھیں گے۔ اگر کسی شخص کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہو اور پھر اسے انصاف ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ اس شخص نے کسی کے ساتھ کوئی ڈیل کی ہے۔ نواز شریف کسی ڈیل کے تحت واپس نہیں آئے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ہم نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا، ہم ماضی کے بھنور میں ہی پھنسے ہوئے ہیں، تاہم جو لوگ غلط راستے پر تھے انہیں واپس پارٹی میں لے آئے ہیں، یہ سیاست ہے اس میں سب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ملک میں صاف انتخابات ہی مسائل کا واحد حل ہیں
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو سیاست ہو رہی ہے وہ تباہی کا راستہ ہے۔ میرا مؤقف یہی ہے کہ پہلے ماضی کی غلطیوں کو درست کریں، آئین میں جو خرابیاں ہیں انہیں درست کریں اور ملک کو کوئی ایک الیکشن فیئر دیں تب ہی حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔
ملکی حالات بہتر کرنے کے لیے تمام فریقین کو مل بیٹھنا ہوگا
انہوں نے تجویز کیا کہ یہ ملک سب کا ہے اور اگر ملک کے حالات ٹھیک کرنے ہیں توتمام فریقین اسٹیبشلمنٹ، فوج، عدلیہ اور سیاستدانوں سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور یہ طے کرنا ہو گا کہ اس ملک کے حالات کو کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔ جب تک ہم بنیادی اصلاحات نہیں کریں گے، گورننس اور اس نظام کو نہیں بدلیں گے، آئین کی قدر نہیں کریں گے تو معاملات آگے نہیں بڑھیں گے۔
اقتدار کی خواہش مسائل کا حل پیش نہیں کرتی
آج محض اقتدار کی سیاست سے حل نہیں نکلے گا، سیاستدان محض اقتدار میں آنے کی خواہش رکھتے ہیں جو کہ ملکی کی حالات کو بہتر کرنے کا حل پیش نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ سینٹ کے انتخابات کی ہی مثال لے لیں جہاں پر ہر جماعت کی اپنی مرضی ہے وہ جسے اس اہم ترین ادارے کے لیے اپنا اُمیدوار بنا لے، یہی بات درست ہے کہ وہاں پر میرٹ نہیں بل کہ جس کی جیب میں جتنا پیسہ ہے وہی ایوان بالا میں جا رہا ہے، سینٹ میں قابل بندے کو سامنے لانا پارٹی کے اختیار میں ہوتا ہے جب کہ اسمبلی میں تو عوام منتخب کرتی ہے، اس لیے پارٹیاں کم ازکم سینیٹ میں تو قابل لوگوں کو لا سکتی ہیں۔
اقتدار کی کرسی نے کسی کو عزت نہیں دی، احتیاط برتنی چاہیے
انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی ڈھانچے میں خرابیوں کی ایک لمبی فہرست ہے، اقتدار کی کرسی نے آج تک کسی کو عزت نہیں دی ہے اس لیے احتیاط برتنی چاہیے۔ ووٹ کو عزت دو کا اصل مقصد یہی تھا کہ الیکشن صاف اور شفاف ہوں۔
الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک کے حالات مزید بگڑ جائیں گے
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ الیکشن صاف و شفاف ہوں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ آج ہی ان الیکشن پر انگلی اٹھنا شروع ہو گئی ہے جس کے بارے میں یہ بات طے ہے کہ اگر یہ الیکشن صاف و شفاف نہ ہوئے تو ملک کے حالات مزید بگڑ جائیں گے اور جب ملک میں حالات مزید بگڑیں گے تو ملکی معیشت بھی مزید تباہ ہو گی۔
2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی، چوری ہوئی اور طے شدہ طور پر عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا، میرے حلقے میں ڈھپے لگے۔ سبق مل گیا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہونی چاہیے اگر ایسا ہوا تو پھر حالات وہی ہوں گے جو ملک کے ساتھ ماضی میں ہو چکے ہیں۔