ايران ميں لازمی حجاب پہننے اور سزائے موت سے متعلق ملکی قوانين کی مخالفت کرنے والی نرگس محمدی نے تہران کی جیل ميں بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ انہيں ايران ميں عورتوں کے ساتھ زيادتيوں کے خلاف جدوجہد کرنے پر رواں برس اکتوبر میں نوبل امن انعام کا حقدار قرار ديا گیا تھا۔
گزشتہ روز اوسلو ميں نرگس محمدی کو نوبل امن انعام دینے کے لیے تقريب منعقد ہوئی۔ ان کی بیٹی اور بیٹے نے ان کا انعام وصول کیا۔ اس سے قبل ايک پريس کانفرنس ميں نرگس محمدی کے بھائی حامد رضا محمدی اور خاوند طيغی رحمانی نے بتايا کہ نرگس محمدی نے ايران کی بہائی مذہبی اقليت کے ساتھ يکجہتی کے طور پر بھوک ہڑتال کا فيصلہ کيا ہے۔ ايران ميں بہائی برادری کے کئی اہم رہنما بھی وقت بھوک ہڑتال پر ہيں اور اسی ليے نرگس نے آج کا دن چنا۔
مزید پڑھیں
انسانی حقوق کی کارکن نرگس محمدی کی عمر 51 برس ہے۔ وہ گزشتہ برس ستمبر ميں تہران ميں زير حراست مہسا امينی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی تحريک کی اہم آواز ہيں۔ اس تحريک کو ’وومين، لائف، فريڈم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اس کے تحت عالمی سطح پر بھی مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ ايران ميں بہائی سب سے بڑی مذہبی اقليت ہے۔ ان کا الزام ہے کہ کميونٹی کے ارکان کو معاشرے کے کئی معاملات ميں امتيازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔
نرگس محمدی کو مجموعی طور پر 13 مرتبہ گرفتار کيا گيا اور 5 مرتبہ سزائے قيد سنائی گئی جس کی مدت 31 برس بنتی ہے جبکہ انہيں 154 کوڑے بھی مارے جانے ہيں۔ گزشتہ 20 برس کا عرصہ انہوں نے آزادی اور جيلوں ميں گزارا۔ آخری بار انہیں 2021 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے بچوں کو، جو اب فرانس ميں مقيم ہيں، ان سے ملے 8 برس بیت چکے ہيں۔