قاضی، کافکا اور بھٹو

منگل 12 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس روز ’جوزف کے‘ کی 30ویں سالگرہ تھی، لیکن وہ صبح اٹھتا ہے تو سادہ کپڑوں میں ملبوس 2 پولیس اہلکار اس کے کمرے میں داخل ہوجاتے ہیں، کمرے کی تلاشی لیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ تم زیرحراست ہو۔ ’جوزف کے‘ ان سے اپنا جرم پوچھتا ہے تو اسے کچھ نہیں بتایا جاتا، ناں ہی اسے وارنٹ گرفتاری دکھایا جاتا ہے۔

’جوزف کے‘ بینک ملازم ہے۔ اس کا کمرہ اتھل پتھل کیے جانے کے بعد وہاں ایک تیسرا شخص بھی آتا ہے، جو خود کو انسپیکٹر بتاتا ہے اور جوزف کو کہتا ہے، اگرچہ تم زیرحراست ہو لیکن اب تم بینک جا سکتے ہو۔ تاہم تمہیں پیشیوں پر عدالت حاضر ہونا پڑے گا۔

سال بھر مقدمہ چلتا ہے۔ وکلاء، بھاری فیسیں، پیشیاں، جرح، دلائل لیکن’جوزف کے‘ کو نہیں بتایا جاتا کہ اس کا جرم کیا ہے؟ پھر 31ویں سالگرہ پر دن چڑھے وہی 2 پولیس اہلکار آتے ہیں اور اسے ایک ویرانے میں لے جا کر قتل کر دیتے ہیں۔

یہ ’فرانز کافکا‘ کے شہرہ آفاق ناول ’دی ٹرائیل‘ کا خلاصہ ہے۔ جو لگ بھگ 1915 میں لکھا گیا لیکن ’فرانز کافکا‘کے انتقال کے اگلے برس 1925 میں شائع ہوا۔ ناول ’دی ٹرائیل‘ کی عالمگیر شہرت کے بعد ایک اصطلاح (Kafkaesque situation) مشہور ہوئی، جسے اردو میں ’کافکائی صورتحال‘ کہا گیا۔ پاکستان میں ’کافکائی صورتحال‘ کی نشاندہی برسوں پہلے ایک بڑے سیاسی رہنما نے کی تھی۔ انہوں نے خود پر بنائے گئے قتل کے مقدمہ میں اپنے دفاع میں کہا تھا کہ ’یہ کافکائی مقدمہ ہے۔‘

کافکا کے ’دی ٹرائیل‘ کا ایک اردو ترجمہ ’پراسرار مقدمہ‘ کے نام سے بھی شایع ہوا۔ اور ہمارے ہاں تو لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر بے نظیر بھٹو کے قتل تک کے تمام مقدمے پراسرار ہی ہیں۔ تاہم پاکستان کا پراسرار ترین مقدمہ ذوالفقار علی بھٹو ہی کا ہے۔

10 اور 11 نومبر 1974 کی درمیانی شب لاہور میں محمد احمد خان قصوری فائرنگ سے زخمی ہو کر جاں بحق ہوئے۔ اکتوبر 1975 میں انکوائری افسر ملک محمد وارث کی سفارش پر مقدمہ داخل دفتر کر دیا گیا کہ ملزمان کا سراغ نہیں مل سکا۔

محمد احمد خان قصوری کے صاحبزادے احمد رضا قصوری نے اگست 1976 میں یہ بیان دے کر دوبارہ پیپلزپارٹی جوائن کرلی تھی کہ ’وہ نصرت بھٹو کو اپنی بہن سمجھتے ہیں اور پنجاب میں کوئی بہن، بھائی کے گھر درخواست لے کر آتی ہے تو بھائی کے پاس اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔‘

احمد رضا قصوری نے مارچ 1977 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے درخواست دی لیکن انہیں پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ یکم اگست 1977 سے سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں۔ بھٹو کو 3 ستمبر 1977 کو 1974 میں ہوئے ’قتل کی سازش‘ کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا لیکن 10 روز بعد ہی لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

رہائی کے بعد بھٹو لاہور پہنچے تو سارا شہر استقبال کے لیے اُمڈ آیا۔ ’آمر‘ کو محسوس ہوا کہ بھٹو ابھی ناکام نہیں ہوا۔ 17 ستمبر 1977 کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ جنرل ضیاالحق نے 29 ستمبر کو انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔

’قتل کی سازش‘ کے الزام کا مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں سنا گیا، ملکی عدالتی تاریخ کا واحد مقدمہ ہے جس میں ہائیکورٹ کو ٹرائل کورٹ بنا دیا گیا تھا۔

بھٹو سے عناد اور ’جالندھریت‘ کی بدولت مولوی مشتاق حسین کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس لگایا گیا۔ ابتدا میں عدالتی کارروائی اوپن تھی مگر 25 جنوری 1978 کو اسے خفیہ قرار دیدیا گیا۔ معزولی کے قریباً 8 ماہ بعد 18 مارچ 1978 کو بھٹو سمیت تمام ملزمان کو سزائے موت سنادی گئی، جبکہ سلطانی گواہوں مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ میں اپیل اور دلائل میں ایک برس بیت گیا اور 6 فروری 1979 کو 4 اور 3 کے تضاد سے ہائیکورٹ کی سزا بحال رکھی گئی۔ 24 مارچ 1979 کو سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواست 5 منٹ سے بھی کم وقت میں خارج کردی۔

سابق سیکریٹری داخلہ روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں لکھتے ہیں ’یکم اپریل 1979 کو وزارت قانون کے جوائنٹ سیکریٹری ارشاد خان اور جنرل کے ایم عارف بھٹو کیس کی سمری لے کر جنرل ضیاالحق کے پاس گئے، صدر نے رحم کی اپیل پڑھے بنا ہی مسترد کردی۔‘

پاکستان کے سابق صدر اور پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو بھی ’جوزف کے‘ کی طرح محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، لیکن ہمارے محافظوں کو اس سلسلے میں کوئی ویرانہ تلاش نہیں کرنا پڑا۔ پروین شاکر نے کہا تھا:
’لہو جمنے سے پہلے خون بہا دے
یہاں انصاف سے قاتل بڑا ہے‘

پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کا صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا؟ صدارتی ریفرنس پر 6 سماعتیں ہوئیں، پہلی 5 چیف جسٹس افتخار چودھری کی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں۔ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی۔ پہلی سماعت 2 جنوری 2012 اور آخری 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔ اس دوران 8 چیف جسٹس آف پاکستان مدتِ ملازمت پوری کرچکے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ آج 11 برس بعد بھٹو قتل کے صدارتی ریفرنس پر دوبارہ سماعت شروع کرے گا۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی سیاست پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، یہاں تک کہ ’آج بھی بھٹو زندہ ہے۔‘ فرانز کافکا نے نہ صرف پاکستانی ادب پر گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے بلکہ ہماری مققنہ، انتظامیہ اور عدلیہ بھی آج تک اسی کے اثر میں ہے۔

اب بھٹو ’قاضی‘ کے کورٹ میں ہے۔ امید ہے کہ بھٹو کو 45 برس بعد ’کافکائی مقدمے‘ سے باعزت بری کیا جائے گا تاکہ قائدِ عوام، عوام کی عدالت میں سرخرو ٹھہرے۔ لیکن اگر ’اناؤں‘ پر ’آئین‘ کو فوقیت نہ دی گئی تو ’کافکائی صورتحال‘ برقرار رہے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp