سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں 11 برس بعد براہ راست سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت دائر کیا گیا۔آخری بار ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔ اب یہ ریفرنس دیر آئے درست آئے پر ہے۔ عدالتی معاونین کو نوٹسز جاری کرکے جواب لیا جائے گا۔ سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سابق صدر اور ریفرنس کے محرک آصف علی زردای، بلاول بھٹو سمیت پی پی کی سینئر قیادت، اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا عدالت میں پیش ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک نے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے پر اظہار تشکر کیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے، مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے۔
بلاول بھٹو نے فریق بنے کی درخواست دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتے ہیں اور بحثیت سیاسی جماعت کے طور پر بھی، صدراتی ریفرنس ابھی تک برقرار ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔
اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اُٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھتے ہوئے ۔ ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001 کا بھی حوالہ دیا۔ عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراج کی کئی درخواستیں دی گئی تھی۔
وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا۔ احمد رضا قصوری نے مؤقف اپنایا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا، بابر اعوان اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے تھے، اٹارنی جنرل نے پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ نہ ملنے کا بتایا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے؟ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ اب یہ ریفرنس دیر آئے درست آئے پر ہے۔ آئندہ سماعت جنوری کے دوسرے میں ہوگی۔ آٸندہ سماعت سے ریفرنس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوگی، سپریم کورٹ ریفرنس میں کوئی التوا قبول نہیں کرے گی۔ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر مزید تاخیر نہیں کرے گی۔
شیری رحمٰن کی پریشانی؟
سپریم کورٹ میں مدعی اور مدعا علیہ کے لیے 2 سائیڈیں مخصوص ہیں۔ مدعی ججز کے سامنے بائیں طرف کرسیوں کی قطار جبکہ مدعا علیہ دائیں طرف کرسیوں کی قطار پر بیٹھتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس سماعت کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب مدعی وکیل فاروق ایچ نائیک مدعا علیہ کے لیے مخصوص کرسیوں پر جبکہ مدعا علیہ وکیل احمد رضا قصوری مدعیان کے لیے مخصوص کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
اس صورتحال کا ادراک ہونے پر کمرہ عدالت میں موجود پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے رضا ربانی کو اشارے سے بتایا کہ فاروق ایچ نائیک کو اس طرف جگہ دی جائے۔ رضا ربانی تھوڑی دیر کے لیے کرسی سے اٹھے لیکن پھر شیری رحمٰن نے انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کر دیا۔ رضا ربانی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنماء نے فاروق ایچ نائیک کو مدعیان کے لیے مخصوص بینچوں پر آنے کے لیے کہا لیکن انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ شیری رحمٰن بعد میں اپنی نشست پر براجمان ہو گئیں۔
چیف جسٹس کی 9 رکنی بینچ کی تشکیل پر وضاحت؟
دوران سماعت چیف جسٹس نے بینچ کی تشکیل پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالتی بینچ میں موجود کسی جج نے صدارتی ریفرنس پر پہلے سماعت نہیں کی، ایک سنئیر جج نے کہا کہ وہ بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہتے، 2 دیگر ججز نے بھی کیس سننے سے معذرت کی، اس کے بعد 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظرثانی بھی خارج ہوچکی ہے۔ ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی۔ ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے۔
ان عدالت کو یہ توبتائیں کہ اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے۔ یہ بہت اہم سوال ہے، کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے، پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے، کیا جب یہ سارا کیس چلا مُلک میں آئین موجود تھا؟
Live Court Proceedings of Butto Case by Fahim Patel on Scribd
مزید پڑھیں
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں 9 عدالتی معاون مقرر کردیے
اہم مقدمے میں آئینی معاملات پر معاونت کے لیے بیرسٹر سلمان صفدر، رضا ربانی، خالد جاوید خان، صلاح الدین احمد، وکیل فیصل صدیقی، مخدوم علی خان، احمد علی کرد اور دیگر عدالتی معاون ہوں گے۔ فوجداری معاملات پر خواجہ حارث کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے۔ جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کریمنل معاملات پر عدالت کی معاونت کے لیے تحریری جواب یا ذاتی حیثیت میں پیش ہوسکتے ہیں۔ تاہم اعتزاز احسن نے صدارتی ریفرنس میں معاونت سے معذرت کرلی۔
آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 186 کے سکوپ کا معاملہ توجہ طلب ہے۔ کس نوعیت کی رائے دی جاسکتی ہے یہ بھی اہم معاملہ ہے، معاملے کے قابل سماعت ہونے پر فوجداری اور آئینی ماہرین کی رائے کیا ہوگی۔
صدارتی ریفرنس ہے کیا؟
سابق صدر آصف علی زرداری نے 2 اپریل 2011ء کو سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قراردینے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ یہ ریفرنس 18 صفحات پر مشتمل تھا جسے اس وقت کے سیکریڑی قانون مسعود چشتی نے عدالت میں جمع کروایا تھا۔ ریفرنس میں صدر زرداری نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر ختم ہونے والے عدالتی مقدمات کا ازسرِنو جائزہ لیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔
اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں کیں لیکن کوئی فیصلہ نہ سنایا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس صدارتی ریفرنس کی ابتدائی سماعت کی تھی۔
اس موقع پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی دوبارہ سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔ اس مقدمے میں چاروں صوبوں سے عدالتی معاون بھی لیے جائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اب اس مقدمے کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں فوجی آمر کی تاریخ نہیں دہرائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی بہت عزت تھی۔
سابق وزیراعظم بھٹو کا مقدمہ
پاکستان کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر 1977ء کوپہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا لیکن 10 دن بعد انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔ 17 ستمبر1977ء کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں مقدمہ بنایا گیا تھا۔
بھٹو نے اس وقت کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی جانبداری اور توہین آمیز رویہ کی وجہ سے اس مقدمہ کی کارروائی کابائیکاٹ کردیا تھا لیکن 18 مارچ 1978ء کولاہور ہائیکورٹ نے یکطرفہ کارروائی میں بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا جسے 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے تین۔چار کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا تھا۔ 24 مارچ 1979ء سپریم کورٹ نے متفقہ طورپر بھٹو کی نظرثانی کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے ان کی سزا کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
پھانسی پانے والے منتخب وزیراعظم
ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد رحم کی اپیل نہیں کی لیکن عالمی رہنماؤں کی اپیلوں اور بین الاقوامی ماہرین قانون کی طرف سے اس فیصلے کی قانونی صحت پر تحفظات کے باجود اس وقت کی فوجی حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979 کو پھانسی دے دی تھی۔
بعد میں موت کی سزا برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل ایک سابق جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے بھی بعد میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلہ اس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاالحق کے دباؤ میں کیا گیا تھا۔