نصابی کتب میں پڑھا کرتے تھے کہ، زمانہ جاہلیت میں بیٹیاں پیدا ہوتے ہی دفنا دی جاتی تھیں۔ زمانہ حال کا احوال بھی ایسا ہی ہو چلا ہے، جہاں کچھ لوگ اپنی دکان داری چمکانے کے لیے بیٹیوں کی تعلیم اور روز گار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک ‘موٹی ویشنل اسپیکر’ کی سوشل میڈیا پر زیر گردش ویڈیو دیکھی، جس میں وہ صاحب بڑے اعتماد سے والدین کو لڑکیوں کو یونیورسٹی میں نہ بھیجنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
موصوف کی اپنے اس جاہلانہ موقف کے حق میں واحد دلیل یو ٹیوب یا انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی گئی ویڈیوز تھیں، جسے دیکھ کر ان کا ضمیر جاگ چکا تھا۔ فرماتے ہیں کہ، آپ کسی بھی یونیورسٹی کے نام کے ساتھ ان کے بتائے گئے مخصوص ‘الفاظ’ لکھیں اور جو ویڈیوز سامنے آئیں گی، انھیں دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ اپنی بہن، بیٹی کو یونیورسٹی بھیجنا ہے یا نہیں۔
ویسے سوال تو یہیں پیدا ہوتا ہے کہ کوئی یہ فیصلہ کرنے کا مجاز کیسے ہے کہ، اس کی بہن بیٹی تعلیم حاصل کرے گی یا نہیں؟ تعلیم تو مرد یا عورت کی جنس سے بالا تر ایک معاملہ ہے، بلکہ عورت کے لیے کہیں زیادہ ضروری۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی گئی ویڈیوز کی صداقت کون پرکھے گا؟
اگر کسی یونیورسٹی میں ڈانس کی ویڈیو اپلوڈ کی گئی ہے تو کیا وہاں روزانہ کی بنیاد پر یہی سرگرمیاں منعقد ہو رہی ہوتی ہیں؟ اول تو ہر یونیورسٹی میں اتنی آزادی ہی نہیں۔ دوسرا، جن اداروں میں کچھ آزادی ہو بھی وہاں سال بھر میں چند ہی روز ایسے آتے ہیں جب ایسی سرگرمیاں منعقد ہوں۔
خیر، آج تو ان صاحب کی زبان سے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں بات نکلی ہے۔ کل کو ایک قدم بڑھا کر وکٹم بلیمنگ کا مارا یہ شخص کہے گا کہ معاشرے کا ماحول خراب ہے، خواتین کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ دفاتر میں ہراسانی ہوتی ہے لہذا خواتین کے لیے روزگار کے دروازے بند ہونے چاہییں۔
اگر لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی محفوظ نہیں، تو کیا ان کے شارٹ کورسز کی دکان محفوظ جگہ ہے؟ کیا یہ صرف یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے؟ کیا بازار، گھر، تمھارا انسٹی ٹیوٹ، ویب سائٹس یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سبھی محفوظ ہیں۔
خواتین کے ساتھ یہ معاملہ صرف یونیورسٹی میں ہی کیوں، بلکہ گلی، محلے، سکول، مدرسے کہیں بھی پیش آ سکتا ہے۔ موٹروے ریپ کیس ہو، زینب زیادتی کیس ہو یا پھر سال 2021 میں رپورٹ ہونے والے ‘پانچ ہزار دو سو’ ریپ کیسز ان میں سے کتنے ہیں جو یونیورسٹیوں میں پیش آئے؟ یعنی خواتین کو گھروں میں پابند کر دیا جائے؟ کیوں نہ ایسے بد بختوں پر پابندی لگائی جائے، جن کی بے لگام زبانیں ایسے مطالبے کرتی ہیں؟ جن کے دماغ کی گندگی سے ظالم کی بجائے مظلوم محفوظ نہیں ۔
خیر معاملہ یونیورسٹی کے ماحول سے زیادتی کے کیسز کی طرف چلا گیا، اگر یونیورسٹی کا ماحول خراب ہے تو باقی کہاں کا ٹھیک ہے؟ اگر لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی ٹھیک نہیں تو کم سن بچوں کے لیے یہ سماج محفوظ جگہ ہے؟ کیا ان جیسوں کی نگاہوں سے اپنی ہی جنس بھی محفوظ ہے۔ کیونکہ یہاں تو معاملہ ذات، جنس یا برادری سے نکل کر طاقتور اور کمزور کا ہے۔
ویسے سوال یہ بھی ہے کہ آج کی لڑکی میڈیکل یونیورسٹی میں نہیں جائے گی، تو کل ان کی بیگم کے لیے لیڈی ڈاکٹر کیا آسمان سے اترے گی؟
آج لڑکیوں کے لیے یونیورسٹی بند کی جائے تو کل کالج، پرسوں سکول اور پھر انھیں پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ اگر وہ پیدا ہو بھی جائیں تو فوراً سے پہلے انھیں دفنا دیا جائے کیونکہ معاشرہ ہوس پرستوں سے بھرا پڑا ہے جن سے باز پُرس ممکن نہیں۔
اس ساری گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ یونیورسٹیاں یا تعلیمی ادارے دودھ کے دھلے ہیں یا وہاں کوئی خرابی نہیں۔ یہ نظام تعلیم بذات خود بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ علمی و عملی استعداد کے بغیر گریجویٹس اور ان سے پیدا ہونے والی بے روزگاری انھی یونیورسٹیوں کی دین ہیں۔ لیکن متبادل نظام متعارف کرائے بغیر یونیورسٹیاں بند کر نے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ یا خواتین کو جانے سے روک کر یونیورسٹیاں کیا آکسفورڈ بن جائیں گی؟ تعلیم اس ملک میں کاروبار ضرور ہے مگر اس کاروبار کو اگلی نسل کی تعمیر کے ادارے میں بدلنا ہو گا۔
تمام دنیا میں ہونے والی تحقیق کو وہاں کی یونیورسٹیاں ہی لیڈ کرتی ہیں۔ کیا امریکہ، برطانیہ، چین، جاپان یا دوسرے ممالک کی ترقی میں ان جامعات نے کوئی کردار ادا نہیں کیا؟ اور کیا آدھی آبادی کو ہائیر ایجوکیشن سے محروم رکھ کر کوئی سماج بہتری کی سمت اختیار کر سکتا ہے؟
عقل سے پیدل اور موٹی موٹی گفتگو کے موتی بکھیرنے والے ان موٹیویشنل اسپیکرز پر کسی بھی قسم کی گفتگو یا انھیں جواب دینے کو میں وقت کے ضیاع سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں پہلے ہی کمزور کا گلا گھونٹا جائے اور آدھی آبادی کی اکثریت اسی کمزور فرقے سے تعلق رکھتی ہو تو پھر گفتگو لازم ہے۔
اشارے پر رُکی بس میں دانتوں کا منجن بیچنے والے نیم حکیموں کی مانند ان موٹیویشنل اسپیکروں کا نشانہ دماغی محنت نہ کرنے والے افراد ہوتے ہیں۔ ان چائے والے رانگ نمبرز کو جہاں مائیک اور موقع ملے یہ فرضی اور نیم سچی کہانیوں سے کچے ذہنوں کو سہانے سپنے بیچ ڈالتے ہیں۔
معاشی تفریق کے شکار اس معاشرے میں جہاں لوگ راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھتے ہیں، وہاں یہ سوشل میڈیائی دانشور اپنے ویوز کی خاطر ہر شے پر برائے فروخت کا تھمب نیل لگا ڈالتے ہیں۔ اپنے مستقبل سے مایوس اس سماج کی ذہنی سطح اب دو جمع دو چارکی بجائے چار سو دکھانے والے مداریوں کو قبول کرتی ہے۔
اس سماج کا دانشورموٹیویشنل اسپیکر ہے اور اس سے بڑھ کر عقل و دانش کی گفتگو کرنے والا یہاں خبطی ہے۔ یہاں گلہ ان موٹی عقل والے موٹیویشنل اسپیکروں سے نہیں، انھیں کانفرنسوں میں مدعو کر کے کچے ذہنوں سے کھیلنے کی دعوت دینے والوں سے ہے۔ خدارا، آئندہ جب انہیں کسی عوامی سرگرمی میں بلایا جائے تو، ان کا بائیکاٹ کریں۔ آخر کو ہم ان فکری بد دیانتوں کے زہر سے کتنی بار ڈسے جائیں گے؟