ملک بھر میں ہونے والے ائندہ عام انتخابات میں 2 ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے عام انتخابات کی تیاریاں زوروں پر جاری ہیں اور اس ضمن میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے 859 حلقوں کے لیے ریٹرننگ افسران کی تعیناتی بھی کر دی گئی ہے۔
اس مرتبہ عدلیہ کی جانب سے ججز کی بطور ریٹرننگ اور ضلعی ریٹرننگ افسران تعیناتی سے معذرت کے بعد الیکشن کمیشن میں ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز اور انتظامیہ کے دیگر افسران کو ریٹائرنگ افسر تعینات کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کی بطور ریٹرننگ افسران تعیناتی سے انتخابی عمل پر بعض حلقے سوال اٹھا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کے افسران کو حکومتیں اپنی مرضی سے تعینات کرتی ہیں جن کے ساتھ ان افسران کی وفاداری اور ان کے عمل میں جانبداری دیکھی جاتی ہے۔ ایسے میں ریٹرننگ افسران کا غیر جانبدار رہنا خاصا مشکل امر ہوتا ہے۔
’پڑوسی ممالک میں بھی یہی ہوتا ہے لیکن کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جاتا‘
وی نیوز نے مختلف ماہرین سے ڈپٹی کمشنرز کی بطور ریٹرننگ افسران تعیناتی کے انتخابات کی شفافیت پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات سے متعلق گفتگو کی۔ پاکستان میں قانون سازی اور انتخابات کے عمل کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ پڑوسی ممالک بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی انتظامیہ کے لوگ ڈپٹی کمشنر وغیرہ ہی ریٹرننگ افسران تعینات ہوتے ہیں اور وہاں پر کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
احمد بلال محبوب نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اس وقت بھی اٹھائے ہیں جب عدلیہ کے ججز ریٹرننگ افسران تعینات تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو تعیناتی کا اعتراض ہے یہ ان افسران پر نہیں ہے بلکہ کسی بڑے لیول کے نظام پر کیا جا رہا ہے اور انتخابات میں ممکنہ مداخلت کو روکنے کی بات کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کے ممکنہ نتائج کا فیصلہ بہت ہائی لیول پر ہوتا ہے، اور گراؤنڈ لیول پر جو کوئی بھی ریٹرننگ افسر تعینات ہو خواہ وہ عدلیہ سے ہو یا انتظامیہ سے ہو اس فیصلے کو تبدیل نہیں کرسکتا۔
صدر پلڈاٹ نے کہا کہ پاکستان میں ہونے والے ائندہ انتخابات میں اگر ہائی لیول سے مداخلت نہیں ہو گی تو مجھے یقین ہے کہ ڈپٹی کمشنرز یا اسسٹنٹ کمشنرز جو کوئی بھی ریٹرننگ افسران تعینات ہوں گے وہ انتخابی عمل کو غیر شفاف نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے دوران ریٹرننگ افسران کی جانب سے کسی بھی قسم کی جانبداری کے مظاہرے پر الیکشن کمیشن ان کے خلاف کارروائی بھی کرے گا اور جو کچھ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں ہوا ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنایا جا سکتا ہے۔
’سنہ 1988 تک انتظامی افسر ہی بطور ریٹرننگ افسر لگائے جاتے تھے‘
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن اور نگراں وزیر قانون و پارلیمانی امور پنجاب ڈاکٹر کنور دلشاد نے کہا کہ دنیا بھر میں ہونے والے انتخابات میں کہیں پر بھی ریٹرننگ افسران کو عدلیہ سے نہیں لیا جاتا بلکہ ہر ملک میں انتظامیہ کے افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں بھی سنہ 1951 سے سنہ 1988 تک افسران کو ریٹرننگ افسر لگایا جاتا تھا تاہم اس کے بعد ججز کو ریٹرننگ افسر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔
ڈاکٹر کنور دلشاد نے کہا کہ سنہ 2013 اور سنہ 2018 میں ہم نے انتخابات پر سوالات اٹھائے اور سیاست دانوں نے الیکشن کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا جس پر اعلیٰ عدلیہ سمیت جوڈیشل افسران کو بھی تحفظات تھے اس لیے اس مرتبہ اعلیٰ عدلیہ نے اپنے جوڈیشل افسران دینے سے معذرت کر لی ہے۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے وقت ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کے لیے الیکشن کمیشن نے چاروں صوبائی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ جوڈیشل افسران فراہم کیے جائیں جس پر جواب دیا گیا کہ ہم جوڈیشل افسران کو الیکشن فرائض کے لیے اس لیے فراہم نہیں کر سکتے کہ عدلیہ کے پاس زیر التوا مقدمات کی تعداد کافی زیادہ ہے اور جو متاثر ہوں گے، لہٰذا چیف جسٹس ہائیکورٹ نے جوڈیشل افسران فراہم کرنے سے معذرت کی تھی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے بیوروکریسی سے افسران کو بطور ریٹرننگ افسران تعینات کر دیا۔