آصف زرداری سے متفق، الیکشن کے لیے جہاں اتنا انتظار کیا وہاں چند دن اور سہی، مولانا فضل الرحمان

بدھ 13 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعیت علما اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سابق صدر آصف علی زرداری کے انتخابات میں تاخیر کے بیان سے اتفاق کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کا بھی یہی مؤقف ہے کہ جہاں اتنا عرصہ انتظار کیا وہاں چند دن اور انتظار کیا جاسکتا ہے۔

آج نیوز کے پروگرام ‘فیصلہ آپ کا’ میں بات کرتے ہوئے جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آصف زرداری کے بیان سے قبل انہیں خیبرپختونخوا میں افغان شہریوں کے ووٹوں کے اندراج سے متعلق علم نہیں تھا۔

الیکشن کمیشن کو تحقیقات کرنی چاہئیں 

انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے، الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ اس کی تحقیق کرے اور اگر غیرملکی شہریوں کے ووٹوں کا اندراج ہوا ہے تو اس کا تصفیہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ لوگ ووٹ تو ڈالتے نہیں تو پھر کون ان کے ووٹوں سے بکسے بھرتا ہے اور نتائج برآمد کرتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہی وہ چیزیں ہیں جو دراصل پچھلے الیکشن میں بھی غالباً دھاندلی کا ذریعہ بنیں، لہٰذا ہم شفاف الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ہمیں صاف اور شفاف الیکشن کا ماحول بھی تو چاہیے۔

الیکشن ملتوی کرنے کے مطالبے کو سنجیدگی سے لیا جائے

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے موسم کی شدت کے باعث انتخابات کے التوا کی بات کی تھی، اب مسلم لیگ ن نے بھی یہ کہا ہے کہ شانگلہ جیسے پہاڑی اور برفانی علاقوں کی طرف رہنے والے لوگ اس سرد موسم میں ووٹ ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، ایسے تمام عوامل کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ہماری باتوں کو محض سیاسی بیان قرار نہ دیا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ الیکشن اس سے پہلے بھی ملتوی ہوئے ہیں، بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بھی انتخابات ملتوی ہوئے تھے، لوگ ان وجوہات کو سمجھ سکتے ہیں لیکن اگر ناگزیر وجوہات ان کی سمجھ میں نہ آئیں اور انہیں لگے کہ کوئی بہانہ تلاش کیا جارہا ہے تو پھر وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرتے ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ نے لاڈلے کو نوازا ہے

انہوں نے کہا ماضی میں بھی ہماری عدالتیں اپنے ایک لاڈلے کو سہولتیں مہیا کرتی رہی ہیں، ابھی پھر پشاور ہائیکورٹ نے جس طریقے سے اپنے لاڈلے کو نوازا ہے، جج صاحب کے استاد نے اپنی ٹویٹ میں بتایا کہ ان کے شاگرد آج ان کے گھر آئے تھے، جج صاحب کے استاد پی ٹی آئی کے آدمی ہیں جس سے اس ساری صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسے سہولت مہیا کرکے الیکشن کمشنر پر پی ٹی آئی کیس کا فیصلہ کرنے پر پابندی لگائی گئی ہے۔

16 ماہ میں یہی ہوسکتا تھا

پی ڈی ایم کی کارکردگی سے متعلق سوال پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے پی ڈی ایم حکومت بننے سے ایک دو سال پہلے ہی بڑے بڑے جلسوں میں کہنا شروع کردیا تھا کہ ملک کی معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ کوئی بھی پارٹی اس کو اٹھانے کا دعوی نہ کرے، لیکن ہم نے ملک کو بھی نکالنا تھا اور اس فتنے کے خلاف بھی جنگ لڑنی تھی، اس میں اتنا ضرور ہوا کہ ملک بھی ٹوٹنے اور دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی حکومت نے ملک کی معیشت کو تھوڑا آگے بڑھایا ہے، 16 مہینے میں اتنا ہی ہو سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی سے فاصلے پیدا نہیں کیے

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ ن، جے یو آئی اور دیگر اتحادی جماعتیں انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں، انکے درمیان اعتماد موجود ہے، انہوں نے مل کر کام کیے ہیں، مسلم لیگ ن کے ساتھ جے یو آئی کا ایک لمبا اتحاد برقرار رہا، اس باہمی اعتماد کا آنے والے مستقبل میں فائدہ ملک کو دینا چاہتے ہیں، چاہے ریاستی ادارے ہوں یا سیاسی جماعتیں، سبھی یکساں طور پر ملک کی بہتری کے لیے سوچ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انتخابات کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں لیکن ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی سے فاصلے بھی پیدا نہیں کیے، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کو جگہ اور احترام دینا ضروری ہے۔

دہشتگردی واقعات زندگی کا حصہ بن گئے ہیں

گزشتہ روز ڈیرہ اسمٰعیل خان میں سیکیورٹی فورسز پر دہشتگردوں کے حملے سے متعلق مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ریاست کو اس کا ادراک نہیں ہے یا ریاست اس سے آگاہ نہیں ہے، یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جبکہ یہاں پر بھی ریاست موجود ہے، ریاستی ادارے موجود ہیں اور اس وقت ایک لمبے عرصے سے وہ اس صورتحال سے نبردآزما ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ باجوڑ اور مستونگ میں سینکڑوں افرد شہید ہوئے، ڈیرہ اسمٰعیل خان، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور آگے جا کر وزیرستان تک روزانہ کی بنیاد پر عام شہری اور ریاستی اداروں کے اہلکاروں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مولانا کا کہنا تھا کہ اس تمام تر صورتحال میں الیکشن کا انعقاد ضروری ہے، اسی الیکشن کے لیے پچھلی حکومت کیخلاف آزادی مارچ کیا، پی ڈی ایم اتحاد بنایا، اپنی تحریک کے بجائے ہم نے عدم اعتماد کے ذریعے تبدیلی لانے کو ترجیح دی، ملک اتنا ڈوب چکا تھا کہ اس کو دوبارہ اٹھانے میں کوئی بڑی کارکردگی بھی ہم نہیں دکھا سکے ما سوائے اس کے کہ ہم نے پچھلی حکومت کو ہٹا کر ملک کو دیوالیہ پن اور ٹکڑے ہونے سے بچایا۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا، ’دہشتگردی کے واقعات اب زندگی کا حصہ بن گئے ہیں، میرے گاؤں میں پرسوں ملٹری آپریشن ہوا، سارا دن گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا، میں اسی دن شام کو اپنے گاؤں پہنچا تھا، اس صورتحال کے باعث علاقے میں گھومنے پھرنے میں ہمیں دشواری ہو رہی ہے‘۔

دہشتگردوں کے مقدمے چلیں تو ریٹائرڈ اور سازشی لوگ بے نقاب ہوں گے

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کی وجہ سے صرف ان کی جماعت نہیں بلکہ سبھی خطرے میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں افغان دہشتگردوں کی موجودگی کے حوالے سے عدالت میں کیس چلنا چاہیے اور اگر اس کی تحقیقات ہوں تو اس میں بڑے بڑے چہرے سامنے آئیں گے،  ریٹائرڈ لوگ بھی سامنے آئیں گے، آج کے لوگ بھی سامنے آجائیں گے، ملک کے خلاف ساری سازشیں سامنے آجائیں گی اور پتہ لگ جائے گا کہ یہ کھیل کون کھیل رہا تھا اور وہ ایسا کیوں کر رہا تھا۔

عمران خان کا کوئی مستقبل نہیں

رہنما تحریک انصاف عمران خان سے متعلق انہوں نے کہا کہ ان کا نہ ماضی تھا، نہ حال تھا اور نہ مستقبل ہے، یہ زبردستی قوم پر مسلط کرنے والا ایک طبقہ ہے جس کو ہمیں نیست و نابود کرنا ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ کی عمران خان سے دوبارہ بات چیت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ہم نے پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مقابلہ کیا ہے اور دوبارہ بھی کریں گے، پاکستان کے مالک اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ ہم ہیں، جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کا مقابلہ کیا ہے، آئندہ بھی اس قسم کے عناصر کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp