سال 2018 کے عام انتخابات سے قبل بلوچستان کے بڑے سیاسی کھلاڑیوں کو ملا کر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے نام سے سیاسی جماعت معرض وجود میں آئی۔ اوائل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اس جماعت کا قیام اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ مرکز میں صوبے کی آواز کو بہتر انداز میں اٹھایا جا سکے۔
انتخابات میں اس جماعت نے بلوچستان میں واضح اکثریت سے نشستیں حاصل کیں اور صوبے میں حکومت سازی کی پوزیشن مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی اس سیاسی جماعت کو اقتدار نصیب ہوا۔ تاہم اقتدار کے دوران ہی اس جماعت کو اندرونی اختلافات کا سامنا رہا جس کے باعث یہ جماعت ٹکڑوں میں بٹتی دکھائی دی۔
سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، سابق صوبائی وزرا محمد خان لہڑی، ظہور احمد بلیدی اور سیلم کھوسہ سمیت کئی ایسے بڑے سیاسی نام پارٹی کو خیرباد کہنے لگے۔ ایسے میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سابق رکن قومی اسمبلی نوابزادہ خالد مگسی نے آخری سانسیں لیتی اس جماعت کی ہارٹ پمپنگ شروع کی تاکہ باپ اسے دوبارہ زندگی مل سکے۔
تاہم آئندہ عام انتخابات کی تاریخ کا علان ہوتے ہی مرکز کی 2 بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دورہ بلوچستان نے اس جماعت کی جڑوں کو مزید کھوکھلا کردیا۔ باپ کی ڈوبتی کشتی کے ملاح قدوس بزنجو ہی اس سے اتر کر پی پی پی کے جہاز میں سوار ہوگئے جس سے پارٹی کو بچانے کی امیدوں کو بڑا دھچکا لگا۔
مزید پڑھیں
پارٹی باقی ماندہ چند اراکین نے صدارت کی ذمے داری خالد مگسی کے سر ڈال تو دی مگر انفرادی امور اس وقت بھی پارٹی کی جڑوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی سمندر میں پیدا کی گئی ہر ہل چل میں جہاں باپ پارٹی کی کشتی ہچکولے کھاتی ہے وہیں ایک ہم سفر باپ پارٹی کا ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔
اپنی پارٹی کی ساکھ بچانے کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، پارٹی کے صدر خالد مگسی اور سیکریٹری جنرل منظور کاکڑ نے ایک بار پھر باپ بچاؤ تحریک کا آغاز کردیا ہے جس کے لیے انہوں نے پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والے سابق اراکین اسمبلی اور سابق رہنماؤں سے روابط تیز کر دیے ہیں تاکہ آنے والے الیکشن میں باپ کی موم کی ناک بچ جائے۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی نصیر احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اندرونی معاملات اب تک حل نہیں ہو سکے ہیں اور باہمی اختلافات کے باعث دراڑیں بڑھتے بڑھتے اب پارٹی کی جڑوں تک پہنچ چکی ہیں جو اس کے ڈھانچے کا دھڑن تختہ کر سکتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پارٹی کے مزید اہم رہنما بھی اڑان بھرنے کو تیار ہیں اور یہ بات ان نئی شمولیتوں سود مند ثابت نہیں ہونے دے گی۔