آسٹریلیا: 4 بچوں کے قتل کے الزام میں 20 سال سے قید ماں کی سزا کیسے ختم ہوئی؟

جمعرات 14 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اپنے 4 بچوں کو قتل کرنے کے جرم میں 20 سال جیل میں قید گزارنے والی ایک آسٹریلوی خاتون کی سزا کو سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔

کیتھلین فولبیگ پر الزام تھا کہ انہوں نے 1989ء اور 1999ء کے دوران نیو ساؤتھ ویلز میں اپنے 4 بچوں کو قتل کردیا تھا۔ انہیں 2003ء میں سزا سنائی گئی تھی۔

کیتھلین فولبیگ کی بے گناہی کے ثبوت سامنے آنے کے بعد انہیں رواں برس جون میں معاف کر دیا گیا تھا لیکن اب ریاست کی جانب سے سرکاری طور پر ان کی سزاؤں کو ختم کر دیا گیا ہے۔

24 سال بعد کیسے ثبوت سامنے آئے؟

کیتھلین فولبیگ کا کیس کوئی عام کیس نہیں تھا، ان پر اپنے 4 بچوں کے قتل کا الزام تھا تاہم جینیاتی سائنس میں ہونے والی ترقی کی بدولت ان کے کیس میں ایسے نئے اور ٹھوس ثبوت سامنے آئے کہ انہیں سرکاری طور پر معاف کردیا گیا اور ان کی سزا بھی ختم کردی گئی۔

2019ء میں اس کیس کی ابتدائی تفتیش میں بچوں کے قتل کے جرم کی تصدیق ہوئی لیکن 2022ء میں دوسری انکوائری میں نئے شواہد سامنے آئے جن کے مطابق 2 بچوں میں جینیاتی تبدیلی کے اثرات پائے گئے تھے جو ان کی موت کا سبب بنے۔

اس کیس کا انحصار ٹھوس ثبوتوں پر تھا لیکن اس کے باوجود یہ کیس سائنسدانوں اور شماریات دانوں کے درمیان تنازعہ کا باعث بنا۔ ان سائنسدانوں اور شماریات دانوں میں سے کچھ کیتھلین فولبیگ کی رہائی کی مہم کا حصہ تھے۔

آسٹریلیا کی اکیڈمی آف سائنس کی چیف ایگزیکٹو اینا ماریہ عریبیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ 2019ء میں بھی نئے سائنسی شواہد موجود تھے مگر اس وقت بنیادی سائنسی اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر قانون میں اصلاح نہ کی گئی تو اس قسم کی ناانصافی جاری رہے گی۔

1999ء میں بھی میری بے گناہی کے ثبوت موجود تھے، کیتھلین

سرکاری طور پر سزا ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد فولبیگ نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’میں شکرگزار ہوں کہ جدید سائنس اور جینیات کی بدولت مجھے آخرکار اس سوال کا جواب مل گیا ہے کہ میرے بچوں کی موت کیسے ہوئی۔‘

کیتھلین فولبیگ کی 2003ء میں لی گئی تصویر

کیتھلین کا کہنا تھا کہ ان کے وکلا کے پاس 1999 میں ان کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے قانونی جواز موجود تھا لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا اور عدالت نے اس بات کا یقین ہی نہیں کیا کہ 4 بچوں کی غیر متوقع اور قدرتی طور پر بھی موت واقع ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام انصاف نے یہ سچ قبول کرنے کے بجائے ان پر لگائے گئے الزامات ماننے کو ترجیح دی۔

معاوضے کا دعویٰ کرنے کی تیاری

کیتھلین کی وکیل رہانی ریگو نے کہا ہے کہ کیتھلین کو دی گئی غلط سزا کے خلاف وہ بھاری معاوضے کا دعویٰ کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اب تمام آسٹریلین ریاستوں پر زور دیا جائے گا کہ وہ فوجداری مقدمات کے لیے نظرثانی کمیشن بھی تشکیل دیں تاکہ آئندہ کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔

تمام بچے کم عمر تھے

واضح رہے کہ کیتھلین کا پہلا بچہ کیلب 1989، دوسرا بچہ 1991، بیٹی سارہ 1993 اور لارا 1999 میں وفات پاگئے تھے۔ پہلے 3 بچوں کی موت بیماری کی باعث ہوئی اور وہ تینوں ایک سال سے بھی کم عمر میں انتقال کرگئے تھے۔

کیتھلین کی بیٹی لارا واحد بچی تھی جس کی عمر 18 ماہ تھی۔ لارا کی موت کے بعد فارنزک پیتھالوجسٹ نے اپنی رپورٹ میں موت کی وجہ ’نامعلوم‘ قرار دی تھی جس کے بعد کیتھلین کے خلاف مقدمہ چلا اور اسے اپنے چاروں بچوں کے قتل کے الزام میں قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کیتھلین کا کیس آسٹریلیا کے اخباروں کی شہ سرخیوں کی زینت بنا اور اسے آسٹریلیا کی ’بدترین قاتل‘ قرار دیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp