پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت نصف ہوگئی، اصل معاملہ کیا ہے؟

جمعرات 14 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک بھر میں مہنگائی میں اضافے کے بعد پیٹرول کی آسمان سے چھوتی قیمتیں اور مہنگی بینک فائنانسنگ کے باعث گاڑیوں کی فروخت میں 53 فیصد تک کمی ہو گئی ہے، پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ میں 25 ہزار گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ گزشتہ سال اس عرصے میں 55 ہزار گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔

آٹو مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کے عہدے داران کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے باعث عوام کے پاس اپنے اخراجات پورے کرنے کے پیسے نہیں ہیں تو نئی گاڑی لینا مشکل ہو رہا ہے، اگر حکومت مہنگائی میں کمی کرے، اور شرح سود میں کمی کی جائے تو گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

پاکستان آٹو مینیوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق گزشتہ سال نومبر کے مقابلے میں 68 فیصد کم گاڑیاں فروخت ہوئیں، رواں سال میں 1300 سی سی اور اس کے اوپر کی گاڑیوں کی فروخت میں 59 فیصد کمی، ایک ہزار سی سی والی گاڑیوں کی فروخت میں 57 فیصد جبکہ ایک ہزار سی سی سے کم والی گاڑیوں کی فروخت میں 46 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔

وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گاڑیاں فروخت کرنے والی معروف ویب سائٹ پاک ویلز کے سربراہ سنیل منج نے کہا کہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی صرف اس سال نہیں ہو رہی بلکہ ہر آنے والے سال میں گاڑیوں کی فروخت میں کمی ہو رہی ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں گزشتہ 4 سالوں میں 300 فیصد تک بڑھ چکی ہیں جبکہ لوگوں کی آمدن نہیں بڑھ رہی۔

’ہم لوگ روپوں میں کماتے ہیں لیکن گاڑیوں کی پارٹس بیرون ملک سے ڈالرز میں آتے ہیں اور ڈالر بھی ان سالوں میں 100 سے بڑھ کر 300 تک پہنچ چکا ہے۔‘

سنیل منج نے کہا کہ پہلے شرح سود کم ہونے کے باعث بہت سے لوگ بینکوں سے گاڑیاں لیز کرا لیتے تھے تاہم اب شرح سود میں بھی 3 گنا اضافہ ہو چکا ہے اس لیے لوگ نئی گاڑیاں نہیں خرید رہے، گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے سود سے پاک ادھار لینا بھی شروع کیا تاہم فروخت میں اضافہ نہ ہو سکا، اب حالات تو یہ ہو گئے ہیں کہ نئی گاڑیوں پر پہلے “اون” ہوتا تھا اب وہ اون سے آف کی طرف چلا گیا ہے، ہر کمپنی مختلف ڈیلز دی رہی ہے، ڈسکاؤنٹ دے رہی ہیں لیکن پھر بھی گاڑیاں فروخت نہیں ہو رہیں۔

وی نیوز نے کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد شہزاد سی گفتگو کی تھی اور ان سے استفسار کیا کہ گاڑیوں کی قیمت میں کمی کی بڑی وجہ کیا ہے جس پر محمد شہزاد نے بتایا پاکستان میں کوئی بھی گاڑی بشمول ٹیوٹا، ہونڈا، کیا، چنگان یہاں بنائی نہیں جاتی یہاں صرف ایسیمبل ہوتی ہیں۔ سوزوکی نے جب یہاں پلانٹ لگایا تھا تو اس نے کہا تھا کہ پانچ سال کے بعد پاکستان میں گاڑیوں کے پارٹس بھی بنائے جائیں گے اور کوئی بھی چیز امپورٹ نہیں کرنی پڑے گی لیکن کوئی حکومتی ادارہ سوزوکی سمیت دیگر کمپنیوں سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ کیوں وہ تمام پارٹس باہر سے درآمد کرکے پاکستان میں گاڑی تیار کرتے ہیں کیوں نہیں پاکستان میں ہی گاڑی کے تمام پارٹس تیار کیے جاتے۔

محمد شہزاد نے کہا کہ دنیا بھر میں جب بھی معیشت مشکل میں ہوتی ہے تو گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اپنے پرافٹ مارجن کم کرتی ہیں جس کے باعث فروخت میں کمی نہیں آتی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے کمپنیاں وقت کے ساتھ ساتھ اپنا منافع کم کرنے کے بجائے بڑھا دیتی ہیں پاکستان میں گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد سے کمپنیوں نے ایڈوانس کی مد میں اربوں روپیہ وصول کر رکھا ہے اور وہ سب پیسہ ان کمپنیوں نے بینکوں کو سوٹ کر دیا ہوا ہے اور اس پیسے کی کمائی کمپنیوں کو موصول ہو رہی ہے۔

’جب تک موجودہ حکومت گاڑیاں بنانے والی کمپنی اس کو پریشر نہیں دیتی کہ وہ گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ بھی پاکستان میں کریں تب تک گاڑیوں کی قیمت میں کمی نہیں ہو سکتی۔‘

کار ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد شہزاد نے کہا کہ اگر پاکستان میں گاڑیاں بننا شروع ہو جائیں تو یہ یہاں کے لوگوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے اور کمپنیوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جہاں 6 سے 8 ماہ قبل گاڑی کے پیسے دیے جاتے ہیں اور اس کے بعد گاڑی ڈیلیور کی جاتی ہے۔ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں پاکستان سے اربوں روپے کما کر جاپان لے گئیں ہیں، لیکن پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں دیا، دنیا میں کمپنیاں اپنے ممالک کو اربوں کا فائدہ دیتی ہیں لیکن پاکستان کو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp