سانحہ آرمی پبلک اسکول: بڑھاپے کے سہاروں کو کندھا دینے والے بدقسمت والدین ہر ماہ اکٹھے کیوں ہوتے ہیں؟

ہفتہ 16 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایک ہال میں بہت سے لوگوں جمع ہیں۔ جہاں ان کی باتوں کی آوازیں آرہی ہیں وہیں اچانک کسی گوشے سے دبی دبی سسکیاں بھی سنائی دیتی ہیں۔ یہ لوگ اپنا غم بانٹنے اکٹھے ہوئے ہیں اور یہ ان کا ہرماہ کا معمول ہے۔ ہر ایک کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں اور گرتے آنسوؤں میں ایک عظیم دکھ کے علاوہ اب تک انصاف نہ ملنے کا گلہ بھی ہے۔

یہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کے والدین ہیں جو ایک دوسرے سے باقائدگی سے مل کر اپنے سانجھے دکھ کا ماتم مناتے اور غم ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہر مرتبہ ہی ان کی خاموش نگاہوں میں ایک تشنہ طلب سوال ضرور نظر آتا ہے جو چیخ چیخ کر پوچھتا ہے کہ کیا ان کے معصوم بچوں کو کبھی انصاف مل پائے گا۔

سنہ 2014 میں آج ہی کے دن یعنی 16 دسمبر کو پشاور کے وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا۔ دہشتگرد اسکول میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ننھے بچوں کو نشانہ بنایا۔ واقعے کے فورا بعد سیکیورٹی فورسز کے دستے پہنچ گئے اور آپریشن شروع کر دیا۔ حملے میں 144 ننھے بچوں سمیت 147 افراد شہید ہو گئے تھے۔

آرمی پبلک اسکول کے اس سانحے نے پورے قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بھی پہلی فرصت میں پشاور پہنچ گئے تھے اور خصوصی اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان تشکیل دے کر دہشتگردوں کے خلاف کلین اپ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جبکہ غم سے نڈھال والدین کو مکمل یقین دہائی کرائی گئی کہ انہیں ہر حال میں انصاف ملے گا اور ایک بھی دہشتگرد کو نہیں بخشا جائے گا۔

9 ویں برسی لیکن والدین کے غم آج بھی تازہ

پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے کو 9 برس بیت چکے ہیں لیکن والدین کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے کیوں کہ ان کے مطابق ان کی زندگی 16 دسمبر 2014 پر ہی رکی ہوئی ہے۔ والدین کا کہنا ہے کہ اس غم کو کم کرنے کے لیے وہ ہر ماہ کسی ایک کے گھر اکٹھے ہوتے ہیں تاکہ بچوں کی یادیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کی جائیں اور اس کے علاوہ اگر کسی شہید بچے کی سالگرہ ہو تو کیک بھی کاٹتے ہیں۔

شہید اسفندیار کی والدہ شاہانہ اجون کے مطابق ان کے اکٹھے ہونے کا مقصد غم کو کم کرنا اور ایک دوسرے کے انسو پونچھنا ہے۔ انہوں نے کہا ‘ہم نے اپنے ننھے معصوم بچوں کو کھویا ہے، ہمارا غم ایک سا ہے۔’

شاہانہ اجون نے بتایا کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے بیٹے کو بھول نہیں پائیں اور اس کی یاد ہر وقت ستاتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اسفند میرا سب سے پیارا اور لاڈلا بیٹا تھا، دوسرا بیٹا اس کی جگہ نہیں لے سکتا اور نہ ہی میں اس کی جگہ دوسرے کو دے سکتی ہوں‘۔

اے پی ایس سانحے میں پشاور کے رنگ روڈ کے رہائشی درانی خاندان نے اپنے 2 بیٹے کھوئے۔ شہید سیف اللہ اور شہید نور اللہ کی والدہ کہتی ہیں کہ حسب معمول اچھے مستقبل کا خواب دیکھ کر بچوں کو صبح رخصت کیا تھا لیکن شام کو ان کی گولیوں سے چھلنی لاشیں گھر واپس آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے 2 پھول جیسے بچے شہید ہوئے ہیں میں اے پی ایس سانحہ کیسے بھول سکتی ہوں لیکن ہمارا ایک ہی سوال ہے کہ ننھے بچوں کا قصور کیا تھا‘۔

ہر ماہ کسی ایک شہید کی سالگرہ مناتے ہیں

شہید سیف اللہ کی والدہ نے بتایا کہ 9 سال بعد بھی ان کے لیے حالات نہیں بدلے۔ 9 سال بعد بھی ان کی زندگی میں غم، آنسو اور بچوں کی یادیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ماں بچوں کے زیادہ قریب ہوتی ہے اور ماں کا دکھ والد کی نسبت دُگنا ہوتا ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ وہ ہر ماہ جمع ہوتے ہیں اور کسی شہید بچے کی سالگرہ مناتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’سالگرہ کیا مناتے ہیں، غم اور آنسوؤں کی جھڑی میں کیک کاٹتے ہیں اور رو کر دل ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔

’نہ محافظ ہیں نہ حکمران اور نہ ہی منصف‘

شہید سیف اللہ کی والدہ بھی حکومت اور ریاست سے گلہ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ان کے ساتھ وعدوں کے باوجود بھی انصاف نہیں ہوا۔ اپنے ایک ہی جملے میں ریاستی ستونوں کا احاطہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس ملک میں نہ حکمران ہیں، نہ محافظ ہیں اور نہ ہی منصف، انہیں کسی کی پرواہ ہی نہیں‘۔

شہید محمد خان کی والدہ بھی یہی کہتی ہیں۔ انہوں نے وی نیوز کے ساتھ بات چیت میں بتایا کہ وہ 9 سال بعد بھی بچوں کو انصاف دلوانے کے لیے جہدوجہد کر رہی ہیں لیکن جو ان کا حق ہے وہ اب تک نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ ’‘ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کو ان کی قربانی کا حق دیا جائے اور ان کی قربانی یاد بھی رکھی جائے اور اس حوالے سے تقربیات ہوں، پوسٹرز اور بینرز آویزاں کیے جائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا نے بچوں کی قربانی کو مانا ہے تاہم والدین شروع دن سے ہی سڑکوں پر انصاف مانگتے پھر رہے ہیں۔

والدین انصاف کے لیے اب بھی عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں

آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے والدین اب بھی تحقیقات پر عمل درآمد کے منتظر ہیں جس کے لیے وہ بدستور عدالتوں کا چکر لگا رہے ہیں۔

شہید حسان کے والد ڈاکٹر امین خان نے بتایا کہ ابتدا میں ان کے مطالبات نہیں مانے جا رہے تھے جس کی وجہ سے انہیں سڑکوں پر احتجاج کرنا پڑا۔ پھر 4 سال کی مسلسل جہدوجہد کے بعد سال 2018 میں جوڈیشنل انکوائری کا مطالبہ اس وقت پورا ہوا جب اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے پشاور میں والدین کی درخواست پر جوڈیشنل انکوئری کا حکم دیا جس کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد ابراہیم خان مقرر کیے گئے۔

3 ہزار صفحات پر مشتمل انکوائری لیکن نتیجہ صفر کیوں؟

جوڈیشنل کمیشن نے سال 2020 میں انکوائری مکمل کرکے 3 ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں واقعے کو ناقص سیکیورٹی کا نتیجہ قرار دیا گیا۔ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ کے بعد کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ کچھ سال قبل سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو مختصر نوٹس میں عدالت طلب کیا جو پیش ہوئے تھے۔

امین خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 سال سے سماعت نہیں ہو رہی جس سے والدین پریشانی کا شکار ہیں۔ انہیں سپریم کورٹ سے امیدیں تھی جو اب دم توڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کیا جائے اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے‘۔

’ہمیں تو کندھا دینے والوں کے ہی جنازے اٹھانے پڑگئے‘

انہوں نے بتایا کہ غم کی وجہ سے والدین وقت سے پہلے بوڑھے ہوچکے ہیں کیوں کہ انہیں انصاف نہ ملنے کا بھی دکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملے گی تو وہ مطمئن ہو جائیں گے اور یہ ایک سبق بھی ہوگا کہ آئندہ ایسا کسی کے ساتھ نہ ہو۔

امین خان نے کہا کہ ’ہم نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو دیا اور جنہیں ہم لوگوں کے جنازوں کو کندھا دینا تھا انہیں ہم نے کندھا دیا بس ہم چاہتے ہیں اب کسی اور کو یہ دکھ نہ ملے جس کے لیے ضروری ہے کہ ان ننھے شہیدوں کو انصاف مل جائے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp