کپتان چپل اور کسٹمر کئیر

پیر 18 دسمبر 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بہت سے افراد اپنی عزت بچانے کی خاطر عزت گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہم بعض اوقات آواز اس لئے نہیں اُٹھاتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ لوگ بہت اہم ہیں اور ان کی رائے بھی مگر سب سے اہم آپ خود ہیں۔ جس دن آپ کو یہ ادراک ہوگیا آپ اپنے لئے آواز اُٹھائیں گے۔

انسانی حقوق میں خریدنے اور بیچنے والے دونوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح کسی مقدمے میں فریقین کا حق ہے کہ انھیں مقدمے کے متعلق جمع شدہ مواد یا ثبوتوں کے حوالے سے آگاہ کیا جائے۔ بد قسمتی سے ہم میں سے اکثر لوگ اپنے حقوق و فرائض سے آگاہی نہیں رکھتے۔

انگریزی میں کہتے ہیں ،

“Customer is king”

بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ ہندو کھتری کہا کرتے تھے ” گاہک دیوتا ہوتا ہے ” وہ اپنے حساب سے ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ دیوتا بھی دیتا ہے اور گاہک بھی۔

بد قسمتی سے مجموعی طور پر ہمارے ہاں صارف کو وہ عزت اور حقوق نہیں دیے جاتے جو پوری دنیا میں اسے حاصل ہیں۔ ہم بنیادی بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ گاہک ہر دفعہ ہمیں کچھ دے کر ہی جائے گا۔ وہ اور اس جیسے ہی ہماری روٹی روزی کا باعث بنتے ہیں۔

گزشتہ دنوں قریبی عزیزوں میں کسی کی سال گرہ تھی۔ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد ان کے گھر جاتے ہوئے پی ڈبلیو ڈی روڈ سے گزرتے ہوئے جے ڈاٹ سے ایک پرفیوم تحفے کے طور پر لے لی۔ میں ذاتی طور پر ایک ڈیڑھ ہزار سے زائد قیمت والی خوشبو کو مہنگا خیال کرتا ہوں۔ مگر گھر والوں کے کہنے پر چار پانچ ہزار کی ایک پرفیوم خرید لی۔ سال گرہ منائی گئی۔ کھانا وغیرہ کھایا گیا تو تحائف وغیرہ دیکھنے کا عمل شروع ہوا۔

پرفیوم کی باری آئی تو علم ہوا ،ایسی پرفیوم تو پہلے ہی موجود ہے۔ بہرحال فیصلہ یہ ہوا کہ سٹور قریب ہی ہے۔ جا کر بدل لیتے ہیں۔ وہاں گئے تو جے ڈاٹ والوں نے کہا ہماری یہ پالیسی نہیں۔

میں نے کہا بھئی ابھی چند گھنٹے ہوئے ہیں خریدے ہوئے۔ پیکنگ بھی نہیں کھولی۔ واپس نہیں کر رہے بلکہ تبدیل کر رہے ہیں۔ اسٹنٹ مینجر نے ایک نمبر بتایا کہ یہ ہیڈ آفس کراچی کا نمبر ہے آپ وہاں کال کریں اگر وہ کہیں گے تو ہم بدل لیں گے۔ جوں ہی کال ملانے لگا تو اسسٹنٹ مینجر صاحب نے کہا ” ویک اینڈ کی وجہ سے دفتر بند ہوگا ، آپ پیر کو فون کر لیجیے گا”

میں کہا آپ کیسی بات کر رہے ہیں چند ہزار کی چیز تبدیل کرنے کے لیے میں پہلے تو سوموار تک انتظار کروں ، پھر کال کروں۔ پتا نہیں وہ بھی تبدیل کریں یا نہ کریں۔ پھر میں میلوں دور آؤں اور جاؤں۔ یہ کیا مذاق ہے؟ آپ کی کیسی پالیسی ہے۔

ملک میں صارفین کا بھی ایک قانون ہے اور صارف عدالتیں بھی ہیں۔ کسی قانون کے کاروبار چلے گا یا ہر دوکاندار اپنی پالیسی بنا کر دیوار پر ٹانگ دے گا۔

ان بچاروں کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ تو کمپنی قانون کے پابند تھے۔ فوراً مجھے خیال سوجھا اور میں نے تیس سیکنڈ کی ویڈیو بنائی جس میں پرفیوم بمع رسید دکھائی اور کہا کہ ایک طرف ملکی قانون ہے اور دوسری طرف ان کی پالیسی ہے۔

یہی بات لکھی اور ویڈیو ٹویٹ کر دی۔

نامور تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ نے یہ لکھ کر ریٹویٹ کی کہ ،

“پرفیوم کی بجائے بندہ دل کر دیکھیں ”

شمع جونیجو نے ریٹویٹ کی کہ انھیں کورٹ میں لے کر جائیں۔ نامور صحافی برادرم وسیم عباسی نے بھی میرے والی ٹویٹ ریٹویٹ کر دی۔

بہرحال اگلے آدھے پونے گھنٹے میں ٹویٹر پر اچھا خاصا بحث مباحثہ شروع ہو گیا۔

اکثر لوگ جلدی جواب دینے یا اپنی پھرتی دکھانے کے لیے شعوری یا لا شعوری طور پر بغیر پوری بات سمجھے پڑھے تبصرہ داغ دیتے ہیں شاید وقت کے ساتھ ذہنی بلوغت آتی جائے گی۔

ایک صاحب نے لکھا ، عام طور پر ڈسکاؤنٹ میں لی گئی اشیاء واپس یا تبدیل نہیں کرتے۔

ایک بھائی نے لکھا، بل میں لکھا ہوگاکہ رٹیرن یا تبدیل نہیں ہوگا۔ اس میں ملکی قانون کہاں سے آگیا؟

کچھ جے ڈاٹ کا دفاع کر رہے تھے اور کچھ ان کو کوس رہے تھے۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔

اگلی صبح اُٹھا تو دیکھا کہ جے ڈاٹ کے ایریا مینجر راجہ عرفان کا میسج آیا ہوا تھا۔

کہ آپ کی ٹویٹ کے حوالے سے کمپنی کی طرف سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

بہرحال پیر والے دن راجہ عرفان سے فون پر بات ہوئی تو میں نے کہا میں آپ یا کمپنی کے ملازمین پر ناراض نہیں لیکن آپ کی کمپنی کو اپنے رویے پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ پھر اپنے ملازمین کو اس قابل بنائیں کہ وہ چانچ سکیں کہ کون سا گاہک درست مطالبہ کر رہا اور کون خواہ مخواہ ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہ رہا ہے۔

راجہ صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا۔ بہرحال میں نے ایک اور ٹویٹ پہلے ٹویٹ کے حوالے سے کر دیا کہ کمپنی نمائندہ راجہ عرفان صاحب نے رابطہ کیا اور مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ جو دوست میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور جے ڈاٹ والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ اب ٹویٹر پر پھر سے تبصرے شروع ہوگئے۔

اس سارے قضیے میں آپ دیکھیں کہ سوشل میڈیا کی کتنی برق رفتار رسائی اور اثر ہے۔

چھوٹے چھوٹے اقدمات ہوتے ہیں جو لوگوں کے لیے بہت بڑی سہولت بن جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے سوا پورے پاکستان میں ا کثر عوامی مقامات پر ٹوائلٹ نہیں اور اگر کہیں ہیں تو ان حالت عموماً نہایت نا گفتہ بہ ہوتی ہے۔ پھر ہاتھ دھونے کے لئے صابن نہیں ہوتا۔ سڑکوں پر عموما ً پٹرول پمپوں کے ساتھ لازماً واش روم نہیں ہوتے۔ اگر کہیں کہ صابن کیوں نہیں رکھتے تو جواب دیں گے لوگ اُٹھا لیتے ہیں۔ یہ ایک گھِسا پٹا بہانہ ہے۔ فرض کریں بیس تیس روپے کی صابن کی چھوتی ٹکیہ آتی ہے۔ اگر پانچ بھی روز اُٹھائی جائیں تو ایک پٹرول پمپ جتنی کمائی کرتا ہے اسے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

اسی طرح بڑی بڑی مارکیٹوں کے ساتھ کوئی عوامی ٹائلٹ نہیں ہوتا۔ آپ اسلام آباد کسی تندور پر روٹی لینے جائیں علامتاً شاپر میں روٹیوں کے ساتھ ایک اے فور سائز کاغذ رکھ دیں گے۔ کھانے کے وقت تک عموماً روٹیاں گوندھے ہوئے میدے کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔

یہ ایسا موضوع ہے جس پر بہت لکھا جا سکتا ہے۔ اب اگر کوئی کاروبار کرنے والا فرد یا کمپنی گاہکوں اعتماد جیتنے میں کامیا ب ہوتی تو وہ اصل میں کامیابی کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے۔ آج کل میں ریحام خان کی انگریزی میں خود نوشت پڑھ رہا ہوں۔ عموماً یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ریحام خان نے عمران خان کے خلاف ہی ساری کتاب لکھی ہے حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ کتاب کا بہت بڑا حصہ ان کی ذاتی کاوش کی کہانی بیان کرتا ہے۔ انھوں نے بہت تفصیل کے ساتھ اپنے خاندان کا ذکر کیا ہے۔ چند روز قبل ہی پڑھا کہ “بفا”ان کا گاؤں مانسہرہ میں ہے۔ ایسے ہی فیس بُک دیکھ رہا تھا تو “بفا”شوز کا اشتہار تھا کہ کپتان چپل گارنٹی کے ساتھ منگوائیں۔ پہلے پارسل کھول کر تسلی کریں۔ سائز کا مسئلہ ہو یا پسند نہ آئے تو آپ تبدیل کر سکتے ہیں اور نہ لینا چاہیں تو پیسے نہ دیں۔ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر آن لائن خریداری سے اجتناب ہی کرتا ہوں۔ لیکن پتا نہیں کیوں میں نے ایک چپل کا آرڈر کر دیا۔ اگلی صبح رحمان کا بفا سے فون آگیا کہ آپ نے آرڈر دیا ہے آپ سائز کنفرم کریں۔ میں نے فوراً کنفرم کیا۔ مجھے بفا والوں کا یہ رویہ بہت اچھا لگا۔ میں نے سوچا یہ یقیناً ترقی کریں گے۔ مجھے جب پارسل ملا تو دل باغ باغ ہوگیا کہ بفا شوز والوں سے کپتان چپل منگوانے کا میرا فیصلہ درست ثابت ہوا ہے۔

اب آپ جو مرضی سمجھیں یا کہیں ،عمران خان نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا۔ وہ اچھا ہے یا برا مگر آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ کپتان چپل کا ٹرینڈ اور نام عمران خان کے ہی کریڈٹ پر ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp