الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔ پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر سمیت 14 درخواست گزاروں نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف الیکشن کمیشن میں درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ درخواستوں پر تمام درخواست گزاروں کے وکلا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔
الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ احکامات کے مطابق میں پی ٹی آئی کا ممبر ہوں، اکبر ایس بابر
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے مرکزی دفتر گئے اور وہاں کے انچارج سے درخواست کی کہ انہیں کاغذات نامزدگی، ووٹر لسٹ اور الیکشن کے قواعد و ضوابط فراہم کیے جائیں۔
اکبر ایس بابر نے کہا کہ مرکزی دفتر میں موجود لوگوں نے انہیں یہ تمام چیزیں دینے سے معذرت کی اور کہا کہ ان کے پاس یہ تینوں مطلوبہ چیزیں موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج جب پی ٹی آئی وکلا نے کاغذی ثبوت کمیشن میں دینے کی کوشش کی تو ہم نے انہیں پیشکش کی کہ آپ ہماری ویڈیوز کی فرانزک کروا لیں۔
اپنی ممبر شپ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں تمام ثبوت دے دیے ہیں اور ہائیکورٹس کے تمام فیصلے پڑھ کر سنائے گئے جس میں لکھا گیا ہے کہ اکبر ایس بابر پاکستان تحریک انصاف کا ممبر ہے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مئی 2017 اور مئی 2018 میں فیصلہ دیا، بعد میں سپریم کورٹ نے بھی فیصلہ دیا کہ وہ صرف رکن نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بانی رکن ہیں، جب عدالتی فیصلے موجود ہیں تو بار بار ممبرشپ کا معاملہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے، اسی لیے الیکشن کمیشن سے کہا ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف توہین عدالت کے تحت کارروائی کی جائے۔
پی ٹی آئی ایپ میں 14 درخواست گزاروں کے نام شامل نہیں، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق سب کو معلوم تھا کہ کس دن الیکشن ہیں، الیکشن شیڈول، کاغذات نامزدگی جمع کرانے، پولنگ کی تاریخ کے بارے میں خبریں میڈیا پر رپورٹ ہوئیں، اس میں کوئی ابہام نہیں کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن پارٹی آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق جسے انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض ہو، اسے سب سے پہلے اپنے پارٹی ممبر ہونے کو ثابت کرنا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ’رابطہ‘ ایپ میں پی ٹی آئی کے تمام ممبرز کے نام موجود ہیں تاہم ان 14 درخواست گزاروں کے نام موجود نہیں ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے ہر ممبر کو ایک کارڈ بھی دیا جاتا ہے، تمام ممبران کو اپنی ممبر شپ فیس بھی دینی پڑتی ہے، ان تمام 14 لوگوں کے پاس ممبرشپ کارڈ موجود نہیں اور نہ ہی انہوں نے ممبر شپ فیس ادا کی ہے، قانون کے مطابق اگر آپ پارٹی ممبر نہیں ہیں تو آپ انٹر پارٹی الیکشن کے خلاف کوئی درخواست بھی جمع کروانے کے اہل نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں
علی ظفر نے کہا کہ ہمارا دوسرا مؤقف یہ تھا کہ ان 14 لوگوں نے کاغذات نامزدگی کے لیے ایک بھی درخواست جمع نہیں کرائی، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کا پینل کی بنیاد پر الیکشن ہوتا ہے جس میں ہر پینل میں 15 امیدواران شامل ہوتے ہیں، ان 14 لوگوں نے نہیں کہا کہ یہ 15 ممبرز لے کر آئے تھے، الیکشن کمیشن کو جمع کرائی گئی درخواستوں میں بھی ذکر نہیں کہ وہ کس پوسٹ پر الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، اس بنیاد پر ہم نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ان 14 لوگوں کی درخوست کو سنا جائے اور استدعا کی کہ ان لوگوں کی درخواستوں کو مسترد کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق آپ نے ایک سرٹیفیکیٹ دینا ہوتا ہے الیکشن کمیشن کو کہ پارٹی نے الیکشن کروا لیے ہیں جسے الیکشن کمیشن کو ماننا پڑتا ہے، اگر کوئی پارٹی الیکشن نہ کرائے تو الیکشن کمیشن کارروائی کر سکتا ہے لیکن الیکشن ہوجانے کی صورت میں الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں،
علی ظفر نے کہا کہ اس کے علاوہ پی ٹی آئی سے متعلق الیکشن کمیشن کے بھی کچھ اعتراضات تھے جس کے جواب پی ٹی آئی سے مانگے گئے تھے، پی ٹی آئی نے بیشتر اعتراضات کے جواب جمع کروا دیے ہیں جبکہ کچھ قانونی نکات تھے جن پر الیکشن کمیشن نے سماعت کرنی تھی۔
’ہم سے پوچھا جارہا ہے کہ الیکشن والے دن آپ بیٹھے تھے یا کھڑے تھے، آپ نے پانی پیا یا کھانا کھایا تھا‘
علی ظفر کا کہنا تھا کہ آج جب سماعت ختم ہوئی تو ہمیں ایک کاغذ دیا گیا اور کہا گیا کہ تقریباً 40 سے زیادہ سوالات ہیں جن کے آپ نے جوابات دینے ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ سوال دیکھ کر ان کو شک گزرا کہ یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے کیا ہو رہا ہے، 3 سوالوں اور 3 ایشوز کو 40 سے زیادہ سوالات میں تبدیل کردیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس بات پر کمیشن کے سامنے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے احکامات کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کروائے اور اس خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کو نااہل نہ کردے انہیں چیئرمین کا الیکشن ہی نہیں لڑوایا، ہم نے تمام کاغذات الیکشن کمیشن کو دیے لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن پوچھ رہا ہے کہ جس دن الیکشن ہوا اس روز آپ کھڑے تھے یا بیٹھے تھے، آپ نے پانی پیا یا کھانا کھایا، اس قسم کے سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔
علی ظفر نے کہا ایسے سوالات دیکھ کرانہوں نے الیکشن کمیشن سے پوچھا کہ کیا ایسے سوالات آپ نے پی ایم ایل ن، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے بھی کیے یا یہ صرف پی ٹی آئی کے لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نمائندوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا تاہم الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ آپ اس کی درخواست دیں ہم اپنے نمائندوں سے اس کا باقاعدہ جواب طلب کریں گے، انہوں نے کہا کہ کل ہم ان 40 سوالات کا جواب کمیشن کے سامنے زبانی طور پر بھی دیں گے۔
الیکشن کمیشن 22 دسمبر سے پہلے فیصلہ کرے، چیئرمین پی ٹی آئی
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن میں ایک سال سے زیادہ عرصہ تک پڑا رہا، الیکشن کمیشن کی جانب سے اس کا پہلا نوٹس 4 دسمبر 2022 کو آیا تھا اور 2 موقعوں پر اس معاملے کو آرڈرز کے لیے محفوظ کیا اور اس دوران 6 ماہ ضائع ہوگئے، یہ معاملہ اب بھی زیر التوا ہے۔
بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفیکیٹ دیا جا چکا ہے اور بار بار درخواست کی جارہی ہے کہ جس طرح باقی 175 جماعتوں کے سربراہان کی جانب سے سرٹیفیکیٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ انہوں نے پارٹی الیکشن کروائے ہیں اور الیکشن کمیشن ان کے سرٹیفیکیٹ جاری کیے اسی طرح ہمیں بھی سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔
گوہر خان کا کہنا تھا کہ 22 دسمبر کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے، اگر ہمارے ممبرز نے پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو یہ خدشہ جنم لے گا کہ آپ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بطور آزاد امیدوار تصور کریں گے جس نے نہ صرف ملک بلکہ جمہوریت کا بھی نقصان ہوگا اور ہارس ٹریڈنگ شروع ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا ہماری الیکشن کمیشن سے پرزور مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی حساسیت و اہمیت اور الیکشن ٹائم فریم کو مد نظر رکھتے ہوئے اور جو قانونی کارروائی پوری ہوچکی ہے اس کو مدںطر رکھتے ہوئے اس معاملے کا جلد از جلد فیصلہ کرے اور ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن کا سرٹیفیکیٹ جاری کرکے اس بے یقینی اور بے چینی کی کیفیت کا خاتمہ کرے۔
گوہر خان نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو الیکشن سے باہر رکھنا جمہوریت کے خلاف سب سے بڑی سازش ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ شب پی ٹی آئی کا ورچوئل جلسہ منعقد کیا جس میں 40 لاکھ افراد نے شرکت کی، کوئی اور سیاسی جماعت اتنی مقبولیت کی حامل نہیں، اسی لیے ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا سرٹیفیکیٹ 22 تاریخ سے پہلے پہلے جاری کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اکبر ایس بابر کا اس پارٹی کے معاملات سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں، جب پارٹی کی خواتین کارکنان جیلوں میں پڑی رہیں اس وقت وہ کہاں تھے، اکبر ایس بابر پلانٹڈ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ پشاور ہائیکورٹ اس لیے گئے تھے کہ الیکشن کمیشن کوئی غیر متوقع فیصلہ نہ کرے، پارٹی رہنماؤں کو باضابطہ طریقہ کار کے مطابق ٹکٹ دیے جائیں گے۔