سپریم کورٹ آف پاکستان نے آفیسر محکمہ تعلقات عامہ کے توسط سے ججز اور ان کی بیگمات کو ایئرپورٹس پر تلاشی کے معاملے سے استثنیٰ قرار دیے جانے کے معاملے پر سیکرٹری ہوا بازی سیف انجم اور میجر جنرل عدنان آصف جاہ شاد ڈائریکٹر جنرل ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کو خط لکھ دیا ہے۔
18 دسمبر کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ’ یہ آپ کے 12 اکتوبر 2023 کو لکھے گئے اس خط کا جواب ہے جو حیرت انگیز طور پر سپریم کورٹ کی موسم سرما کی تعطیلات کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے پاکستان سے ترکیہ جانے کے فوراً بعد میڈیا میں منظر عام پر آ گیا۔
مزید پڑھیں
خط میں لکھا گیا ہے کہ برائے مہربانی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور مکمل انکشاف کے بہتر مفاد میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے 21 ستمبر 2023 کے خط کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔ جس میں واضح ہے کہ جسم کی تلاشی کے استثنیٰ کا اصول سپریم کورٹ نے نہیں بنایا تھا اور نہ ہی کسی قسم کا استثنیٰ مانگا گیا تھا۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے صرف ایک بے ضابطگی کی نشاندہی کی تھی، جو یہ تھی کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کی شریک حیات کو جسم کی تلاشی سے استثنیٰ حاصل تھا لیکن حاضر سروس ججوں کی شریک حیات کو یہ استثنیٰ کیوں حاصل نہیں؟۔ اس بے قاعدگی کو حل کرنے کے لیے آپ کا خط وضاحت پیش نہیں کرتا ہے اور نہ ہی ’اے ایس ایف‘ اور نہ ہی حکومت پاکستان کو سیکیورٹی کی خلاف ورزی پر کوئی تشویش ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ اصل حقائق یہ ہیں کہ ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پاکستان سے روانگی کے فوری بعد 66 دن پہلے لکھے گئے خط کا جواب دلچسپ طور پر اب منظر عام پر آ رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ججز کی شریک حیات کو جسم کی تلاشی سے استثنیٰ قرار دیے جانے کے کوئی کارڈ موصول نہیں ہوئے ہیں۔
تیسرا سچ یہ ہے کہ پاکستان سے روانگی سے پہلے 16 دسمبر 2023 کو مسز عیسیٰ خود اے ایس ایف کے کمرے میں گئیں اور ایک خاتون افسر نے ان کی تلاشی لی۔ ہوائی اڈے پر نصب کیمروں کے ذریعہ ریکارڈنگ اس کی تصدیق کرے گی۔ انہوں نے کوئی استثنیٰ مانگا نا ہی انہیں استثنیٰ دیا گیا۔
چھوتھی بات یہ ہے کو ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اسلام آباد ائیرپورٹ پر وی آئی پی لاؤنج استعمال کرنے کی پیشکش کی گئی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ پانچواں سچ یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لگژری لیموزین کے استعمال سے بھی انکار کر دیا جو وی آئی پیز کو طیارے تک لے کر جاتی ہے۔