سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد ہمارے ہاتھ باندھے گئے ہیں، جسٹس ارباب محمد طاہر

منگل 19 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبرپختونخوا، سندھ اور پنجاب کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کیخلاف دائر درخواستوں پر ابتدائی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے آبادی میں اضافے پر نشستیں کم ہونے کے معاملے پر دلائل طلب کرلیے ہیں۔

ملک کے مختلف اضلاع کی حقلہ بندیوں کو چیلنج کرنے کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے کی، درخواست گزاروں کی جانب سے وکلاء سید قمر سبزواری، قاسم نواز عباسی جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ضیغم انیس اور ثمن مامون عدالت میں پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ کے حلقہ بندیویں کے خلاف کیسز غیر موثر ہونے کا تحریری حکمنامہ جاری نہ ہوسکا تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن سے دلائل طلب کرلیے ہیں کہ اگر آبادی بڑھی ہے تو نشستیں کم کیسے کی جاسکتی ہیں، عدالت عالیہ نے فی الحال سماعت میں 2 بجے تک وقفہ کردیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس ارباب طاہر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ آبادی بڑھنے پر نشتیں کم کریں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد ان کے ہاتھ باندھے گئے ہیں، ان کے پاس وقت تو نہیں مگر ایسا فیصلہ دیں گے جو مستقبل میں کام آئے۔

وکیل درخواست گزار قمر سبزواری نے موقف اختیار کیا کہ حلقہ این اے 8 باجوڑ کی کل آبادی 13 لاکھ ہے لیکن حلقہ ایک دیا گیا، ماضی میں ہمارے ضلع میں دو حلقے تھے اور اب ایک حلقہ بنایا گیا، ہمارے پڑوس کے قومی اسمبلی کا حلقہ ساڑھے 5 لاکھ کی آبادی پر رکھا گیا، یہ پہلے مان لیتے ہیں کہ غلطی ہوئی ہیں اور پھر درخواستوں کو خارج کرتے ہیں۔

جسٹس ارباب طاہر نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے ووٹر کی تعداد کتنی رکھی ہے، کیا حلقہ بندیوں کی شیڈول کا اعلان آپ سیکشن 57 کے تحت کرتے ہیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ نئی حلقہ بندیوں کا تعین ضلع کی حد تک کر رکھا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 35 کوہاٹ کی نئی حلقہ بندی کو ریمانڈ بیک کرچکی ہے، الیکشن کمیشن خود ہی الیکشن ایکٹ کے سیکشن 20 کی خلاف ورزی کررہا ہے۔

جسٹس ارباب طاہر نے الیکشن کمیشن سے دریافت کیا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت کیا آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ آبادی بڑھنے پر حلقہ ضم کریں، ہمیں یہ بتائیں کہ الیکشن ایکٹ میں کہا لکھا ہے کہ آبادی زیادہ ہو تو دوسرے حلقے میں منتقل کردی جائے، ویسے تو ہر 10 سال بعد مردم شماری ہونی چاہیے مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ قومی اسمبلی کے حلقے کے لیے 9 لاکھ کی آبادی درکار ہوتی ہے، جسٹس ارباب طاہر بولے؛ اگر 9 لاکھ کی آبادی ہے تو یہاں 13 لاکھ میں کیسے ایک حلقے کو رکھا گیا، الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں یہی کچھ کیا ہے۔

ان ریمارکس کے ساتھ عدالت نے الیکشن کمیشن سے ’اگر آبادی بڑھی ہے تو نشستیں کم کیسے کی جاسکتی ہیں‘ پر 2 بجے دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پنجاب میں چنیوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقے 93 اور 94، اسی طرح ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قومی اسمبلی کے حلقے 106 اور 107 کی حلقہ بندیوں سمیت صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 8 کی حلقہ بندی چیلنج کی گئی ہے۔

اسی طرح ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے صوبائی اسمبلی کے حلقے 121 اور 124 اور سندھ کے ضلع سانگھڑ میں صوبائی اسمبلی کے حلقے 41 اور 42 کی حلقہ بندیاں چیلنج کی گئی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp