پاکستان میں سنہ 2018 کے الیکشن کے بعد انتخابی مہم یا پھر پارٹی سے متعلق کسی بھی خبر کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کے رجحان میں خاصا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سوشل میڈیا اب عام آدمی تک رسائی کے لیے ہر سیاسی جماعت کی ضرورت بن چکا ہے اور انہوں نے اس کام کے لیے سوشل میڈیا مینیجرز کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں جو ہر طبقے کی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے پارٹی پیغامات ترتیب دیتے ہیں اور پھر انہیں اس طرح سے شیئر کرتے ہیں کہ نہ صرف عوام ان کو دیکھ کر متاثر ہو بلکہ پارٹی کا حصہ بھی بنے۔
عموماً سوشل میڈیا مہم کا مقصد پارٹی کے سیاسی بیانیے کو عوام میں مقبول کرنا ہوتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ صارفین پارٹی کے متعلق خبروں کو جانیں اور ان پر تبصرے کریں جس سے پارٹی کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہو۔
انتخابات میں تقریباً ڈیڑھ مہنہ رہ گیا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا دور میں الیکشن مہم کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ سوشل میڈیا پر مہم چلانے کو ترجیح دی جارہی ہے کیونکہ سنہ 2024 کا ووٹر ڈیجیٹل دور کا ووٹر ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے سیاسی مہم چلانا انتہائی اہم ہو چکا ہے۔
’پیپلز پارٹی کا سوشل میڈیا ایک سال میں زیادہ مضبوط ہوا‘
پیپلز پارٹی کے سوشل میڈیا کور ٹیم کی ممبر ملیحہ منظور نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا سوشل میڈیا گزشتہ ایک سال میں کافی زیادہ مضبوط ہوا ہے اور انتخابی مہم کے لیے ہم آج تک جو بھی عوام کی فلاح کے لیے کام کر چکے ہیں انہیں ان تمام پراجیکٹس سے آگاہ کریں گے اور انہیں مستقبل کے حوالے سے یقین دلائیں گے کہ انہی کامیاب منصوبوں کی طرح پیپلز پارٹی اقتدار میں آکر مزید کامیاب منصوبوں پر کام کرے گی۔
ملیحہ منظور نے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی والے دن 27 دسمبر کو سوشل میڈیا انتخابی مہم کا با قاعدہ آغاز کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کی انتخابی مہم فیلڈ لیول پر بھی شروع ہو جائے گی جس کا آغاز چیئرمین پیپلز پارٹی کے جلسے سے ہوگا۔ ان کا مزید کہنا تھا اور اس سوشل میڈیا مہم کے لیے چاروں صوبوں سے بڑی تعداد میں ہمیں نوجوانوں نے جوائن کیا ہے اور ایک بڑی مہم شروع کی جائے گی جیسی کراچی مئیر الیکشن کے وقت چلائی گئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کی سنہ 2024 کی انتخابی مہم کا مقصد ایک ایسی قیادت ہے جو نفرت پھیلانے، بدلا لینے، گالم گلوچ اور سیاسی ماحول کو خراب کرنے سے گریز کرے۔ انوں نے مزید بتایا کہ پارٹی کی سوشل میڈیا ٹیم میں کانٹینٹ کریئیٹرز اور پولیٹیکل ایکٹیویسٹ ہیں جو سنہ 2024 کی انتخابی مہم کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ملیحہ منظور کا کہنا تھا کہ آج کے جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور دور کے لیے سوشل میڈیا پر انتخابی مہم چلانا بے حد ضروری ہو چکا ہے کیونکہ آدھے سے زیادہ ووٹرز سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میئر کراچی کے الیکشن کے وقت ہماری سوشل میڈیا مہم ’کراچی ہم سب کا‘ نے ایک بڑا کردار ادا کیا اور مرتضیٰ وہاب کراچی میئر منتخب ہوئے جبکہ یہ سیٹ پہلے کبھی بھی پیپلز پارٹی کے حصے میں نہیں آئی تھی۔
’ن لیگ 13 جنوری سے دھماکے دار سوشل میڈیا مہم شروع کرے گی‘
عاطف رانا مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہی کرتے ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے حوالے سے بتایا کہ ن لیگ کی سوشل میڈیا پر انتخابی مہم میں ماضی میں لائے گے بڑے اور کامیاب منصوبوں کا تذکرہ خاصی اہمیت کا حامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آگاہ ہونا چاہیے کہ ن لیگ صرف باتیں نہیں بناتی ہے بلکہ عمل بھی کرتی ہے اور اس کا ارادہ مستقبل میں بھی عوام کی سہولیات کے لیے بڑے منصوبے لے کر آنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 2018 میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو جیل میں رکھا گیا اور ہم سے انتخابی نشان بھی لے لیا گیا اور اس کے علاوہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ بھی نہیں ملی لیکن اس کے باوجود ہم نے بہت دلیری سے مقابلہ کیا تھا۔
عاطف رانا نے کہا کہ ن لیگ کے سوشل میڈیا فالوورز پارٹی کے پکے سپورٹرز ہیں اور وہ ہر حال میں ن لیگ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی جھوٹے اعدادوشمار اور آرٹیفیشل طریقے اپنا کر عوام میں مقبولیت کا دعویٰ کرتی ہے۔
انتخابی مہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ مہم جاری اور قائد ن لیگ میاں محمد نواز شریف کے جتنے بھی بیانات ہوتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر ڈالے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پارٹی کے قائد کا ’ریپلیکا‘ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 13 جنوری سے ن لیگ کی دھماکے دار سوشل میڈیا مہم شروع کی جائے گی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کے ساتھ انٹریکٹ کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2024 کی انتخابی مہم میں سب سے مختلف چیز منشور ہے، ن لیگ اس بار آن ’لائن منشور پورٹل‘ لانچ کر رہی ہے جس میں ہر طبقے (کسان، ڈاکٹرز، بزنس مین وٖغیرہ) سے تعلق رکھنے والے افراد سے تجاویز لی جائیں گی کہ پارٹی کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نیا لانا چاہیے انہیں اور کون سی سہولیات کی ضرورت ہے۔
عاطف رانا نے کہا کہ پی ٹی آئی والے یہ کہتے ہیں کہ ان کے آن لائن جلسے میں 4 میلین لوگوں نے حصہ لیا اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ ملک میں انترنیٹ نہیں تھا، یہی بات ثابت کر دیتی ہے کہ 4 میلین کا دعویٰ جھوٹا ہے اور اگر دوسری جانب اسے درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو سوشل میڈیا پر 82 ملین صارفین ہیں جن میں سے 4 ملین کچھ بھی نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بار ہماری سوشل میڈیا مہم نہ صرف کامیاب رہے گی بلکہ سنہ 2024 کے الیکشن میں ایک بڑا کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے بتایا کہ پورے ملک میں سوشل میڈیا ڈیسکس بنائی گئی ہیں اور ہر علاقے کے مطابق انتخابی مہم چلائی جائے گی اور اس کا اثر انتخابات میں نظر بھی آئے گا۔
’سپرائزز ابھی باقی ہیں‘، پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم
پی ٹی آئی یوٹیوب کے ہیڈ علی ملک نے پارٹی کی انتخابی مہم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ سرپرائز دیا ہے اور انتخابی مہم میں کچھ سرپرائز دے چکے ہیں اور کچھ سرپرائز ابھی باقی ہے۔
علی ملک نے کہا کہ ان کی سوشل میڈیا پر انتخابی مہم 9 اپریل سے جاری ہے جس کا باقائدہ آغاز 10 اپریل 2022 کو عوام نے سڑکوں پر نکل کر کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا نعرہ بھی یہی ہے کہ ’ظلم کے بدلے ووٹ‘ جبکہ انتخابی مہم ’نظام بدلو، پاکستان بدلو‘ جملے پر ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی مہم کا پہلا فیز گزر چکا ہے جس میں عمران خان کا ورچوئل جلسہ بھی شامل ہے اور اس طرح کے کچھ مزید سرپرائزآگے بھی آئیں گے‘۔
علی ملک نے کہا کہ صرف یہی گزارش ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے دیے جائیں، بیشک جلسے نہ کرنے دیں، لیڈران کو جیلوں میں رکھیں لیکن بس الیکشن تک رسائی دے دی جائے تو ہم انہیں جیت کر دکھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم انتخابی مہم کا ایک مرحلہ کامیابی سے پار کر چکے ہیں اور وہ کامیابی ہمارا ارٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ورچوئل جلسہ کروانا تھا اور اس جلسے کے کامیاب ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جلسہ پاکستان کے دور دراز دیہاتوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں انتخابی مہم کا دسرا مرحلہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے بعد ہوگا جس میں سرپرائز یہ ہوگا کہ جیسے زرتاج گل کو عوام نے ساڑھے 5 مہینے کے بعد ایک دم سے دیکھا تھا اسی طرح سے ہمارے کچھ لیڈران جو کافی عرصے سے غائب ہیں ہمارے ورچوئل جلسے میں عوام کو نہ صرف دیکھنے کو ملیں گے بلکہ وہ آن لائن خطاب بھی کریں گے۔
علی ملک نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان جیل میں نہ ہوتے تو وہ سڑکوں پر جلسے کرتے اور فیزیکل جلسوں کو ترجیح دیتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتخابی مہم بھی پی ٹی آئی کے مقابلے میں کوئی اتنی اچھی نہیں کر سکے گا اور پی ٹی آئی کی انتخابی مہم الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشنز پر بھی اثر ڈالے گی اور انتخابات کے نتائج پر بھی۔