پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اور سیاست کا مرکز پنجاب کئی دہائیوں سے مسلم لیگ نواز کی سیاست کا قلعہ رہنے کے بعد اب ن لیگ کے ہاتھوں سے آہستہ آہستہ سرک رہا ہے۔
کسی دور میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان بیشتر حلقوں میں کانٹے کے مقابلے دیکھنے کو ملتے تھے مگر پیپلز پارٹی کا سندھی ووٹرز کو اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنے کے لیے پنجاب مخالف نعرے لگانے اور مسلم لیگ نواز کے صوبہ پر مکمل کنٹرول کرنے کے عزائم نے پیپلز پارٹی کو سندھ اور جنوبی پنجاب تک محدود کردیا۔
اس خلا کو تحریک انصاف نے پورا کیا اور مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ایک بڑی جماعت کے طور پر ایسے ابھری کہ ابھی تک مسلم لیگ ن اس گوں مگوں کی صورت حال سے دوچار ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ کیسے نمٹا جائے۔
خاص طور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اس کی گرتی ہوئی مقبولیت میں پاکستان ڈیموکریٹک آلائنس (پی ڈی ایم) حکومت کی قیادت سنبھالنا اور پھرمشکل ترین معاشی فیصلے کرنا مسلم لیگ ن کو خاصا مہنگا پڑا۔
عمران خان نے ایک سال تک ایسی مہم چلائی کے وہ پہلے سے بھی زیادہ مقبول لیڈر بن گئے۔ اب ان کی جماعت سے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام سیاسی جماعتیں خوفزدہ ہیں کہ وہ کیا حربہ استعمال کریں کہ اس کی مقبولیت کا گراف نیچے لایا جا سکے۔
اگرچہ 9 مئی کے واقعات اور اس کے بعد استعمال ہونے والے حربوں نے پاکستان تحریک انصاف کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا ہے مگر ایک عجیب سا خوف اب بھی باقی ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں صرف ایک بات بھول گئیں کہ ملک کی ایک بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس پر کسی پارٹی نے دھیان نہیں دیا۔ عمران خان نے انہیں محض خواب دکھا کر اپنی طرف راغب کر لیا جبکہ دوسری جماعتوں نے انہیں سرے سے نظرانداز کیے رکھا اور صرف خاندانی سیاست اور الیکٹ ایبلز کے بھروسے پر الیکشن جیتتے رہے۔
اب بھی انہیں مکمل احساس یا اندازہ نہیں ہے کہ نوجوان اپنے رہنماؤں سے کیا چاہتے ہیں۔ بڑی جماعتوں کے یوتھ ونگز 50 سال سے اوپر کے لوگ چلا رہے ہیں جوجانتے ہی نہیں کہ اس دور کے نوجوانوں کی ضروریات کیا ہیں۔
پیپلز پارٹی کے پاس غربت اور صحت جیسے مسائل حل کرنے کے نعرے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اپنے ترقیاتی منصوبوں کے دائروں میں گھوم رہی ہے۔ جدید دور کے تقاضوں سے دونوں بڑی جماعتیں نابلد ہیں۔ بلاول بھٹو میں صلاحیت تو ہے کہ وہ نوجوانوں کی قیادت کرسکیں مگر وہ اپنے والد کی بیڑیوں سے آزاد ہوں گے تو کچھ اپنی مرضی سے پارٹی پالیسی بنا سکیں گے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو پارٹی میں شامل کیا اور حماد اظہر، مراد سعید، فرخ حبیب اور عمر ڈار جیسے نوجوانوں کو لیڈر بنا کر پاکستان تحریک انصاف کو نوجوانوں کی پارٹی بنا دیا۔
اب دیگر جماعتیں اس شش و پنج میں ہیں کہ وہ کیا کریں۔ مسلم لیگ نواز محض لیپ ٹاپس دے کر نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی ناکام کوشش کرتی رہی، ادھر پیپلز پارٹی صرف بلاول بھٹو کو سامنے لا کر نوجوانوں کی جماعت بننے کے دعوے کررہی ہے۔
ملک کی دیگر جماعتیں جمعیت علماء اسلام (ف)، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی زیادہ تر جماعتیں بھی نوجوانوں کے مسائل پر کم ہی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
مغربی دنیا میں نئی نسل کے مسائل جاننے کے لیے وہاں کی یونیورسٹیاں تحقیق کررہی ہیں کہ میلینیئلز اور جنیریشن ذی کیا سوچتے ہیں اور ان کے مسائل کیا ہیں۔ اس تحقیق کی بنیاد پر وہاں کی جماعتیں اپنی آئندہ کی پالیسی مرتب کر رہی ہیں اور نوجوانوں کو قیادت سونپ رہی ہیں خاص طور پر یورپ میں کئی ممالک میں نوجوان خواتین اور مرد وزیراعظم کے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں۔
اس کے برعکس پاکستان میں نوجوانوں کی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہیں دے رہا ہے اور نہ بوڑھے سیاستدان انہیں آگے آنے دے رہے ہیں۔
بلاول بھٹو نے بزرگ سیاستدانوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوجائیں، آرام فرمائیں اور نوجوانوں کو آگے آنے دیں۔ ان کے اپنے والد آصف زرداری نے جواب میں بلاول کو بچہ قرار دے دیا اور کہا کہ ابھی وہ اس کی ٹریننگ کر رہے ہیں بچہ تو پھر بچہ ہوتا ہے۔
یہ ذہنیت صرف سیاستدانوں میں نہیں بلکہ پاکستان کے معاشرے کی عمومی سوچ ہے کہ والدین کے بچے جتنے بھی بڑے ہوجائیں وہ انہیں بچوں کی طرح ہی دیکھتے ہیں اور ان کی رائے لینے کی بجائے اکثر جھاڑ بھی دیتے ہیں کہ تم بڑوں کی باتوں میں ٹانگ مت اڑاؤ۔
اس کی وجہ سے نوجوان مختلف نفسیاتی مسائل میں گھرے نظر آتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر بھی گھر کے کسی معاملے میں اپنی رائے نہیں دے سکتے اور اسی طرح سے سیاسی جماعتوں میں بیٹھے بزرگ سیاستدان بھی انہیں کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
معاشرے کی طرح سیاسی جماعتیں اگر اسی طرح سے نوجوانوں کو نظرانداز کرتی رہیں تو انہیں ایک خوفناک ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے تو نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں تمہاری طرف دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی پاسبان اور معمار ہو‘۔ ہم تو قائداعظم کے دیگر اقوال یا کسی طریقے پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو اس قول پر کیوں کر دھیان دیں گے؟۔