الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دے دیا، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی بلے کے نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکتی۔
جمعہ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروانے میں ناکام رہی ہے۔
CamScanner 12-22-2023 21.05 by akkashir on Scribd
مقدمے کی سماعت چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی جس کے بعد جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے فیصلہ تحریر کیا۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی کے آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروائے۔
بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہرعلی چیئرمین پی ٹی آئی نہیں رہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جن میں گوہر خان کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔تاہم اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی کہ پی ٹی آئی کے الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔
یہ کیس الیکشن کمیشن میں چلایا گیا ہے اور پھر پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا لیکن پھر جمعہ کو فیصلے جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ سنایا جس میں پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو اکبر ایس بابر سمیت دیگر نے چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی کے نئے چیئرمین نے انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق دستاویزات جمع کروائیں۔
BREAKING: The #ElectionCommission of Pakistan declared that #Pakistan Tehreek-e-Insaf’s intra party elections were null and void on Friday. The Commission said PTI would not be given the bat symbol in the upcoming general election. The order said that the party failed to organise… pic.twitter.com/vrbRQgOFQV
— World Times (@WorldTimesWT) December 22, 2023
تحریک انصاف پر اعتراض تھا کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات نہیں بلکہ خفیہ طور پر کرائے گئے جب کہ کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی نا ہی کسی نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا، پولیٹیکل فنانس ونگ نے نیاز اللہ نیازی کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی پر اعتراض اٹھایا۔
مزید پڑھیں
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمر ایوب کو کسی آئینی فورم نے سیکرٹری جنرل تعینات نہیں کیا، عمر ایوب نیاز اللہ نیازی کو پارٹی چیف الیکشن کمشنر تعینات نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کرانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے سابق چیف الیکشن کمشنر جمال اکبر انصاری کا استعفیٰ ملا نا ہی جمال اکبر انصاری کو ہٹانے کی کوئی دستاویز نہیں، پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق وفاقی الیکشن کمشنر 5 سال کے لیے تعینات ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جمال اکبر کو عہدے سے ہٹانے کی کوئی قرارداد الیکشن کمیشن میں نہیں جمع کرائی گئی۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکیل نے اعتراف کیا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں طریقہ کار اختیار نہیں ہوا۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے 2017 میں منتخب عہدیداران کی مدت ختم ہوچکی ہے،عمر ایوب آئینی طور پر سکریٹری جنرل منتخب نہیں ہوئے جب کہ اسد عمر دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔
فیصلے کے مطابق تحریک انصاف کے آئین میں ایسا نہیں کہ چیئرمین عہدیداران کی معیاد بڑھا سکتا ہے، پی ٹی آئی کے اپنے چیئرمین کی معیاد 13جون کو مکمل ہوگئی ہے، آئینی طور پر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے قبل چیف آرگنائزر نے چلانا تھا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی چیئرمین نے 10جون 2022 تک کوئی الیکشن نہیں کروایا، آئین کے مطابق کسی عہدیدار کے پاس عہدیداران کا تقرر یا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا اختیار نہیں تھا۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے کہا تھا کہ وہ اپنے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کرائے۔
پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جن میں گوہر خان کو بلامقابلہ چیئرمین منتخب کیا گیا تھا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی کہ پی ٹی آئی کے الیکشن اس کے آئین کے مطابق نہیں ہوئے۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے قرار دیا تھا کہ تحریک انصاف 20 دن میں جماعتی انتخابات ازسرنو کروانے میں ناکام رہی تو اس صورت میں اسے اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہونا پڑ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے بعد فوری ردعمل میں اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ عدالتی راستہ اختیار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس فیصلے کو چیلنج کرے گی۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی 20 روز میں انتخابات نہیں کرواتی تو وہ اپنے انتخابی نشان یعنی بلے سے محروم ہو جائے گی اور ان کے امیدوار عام انتخابات میں اس نشان پر الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔
یہ تحریری فیصلہ الیکشن کمیشن کے رکن جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ خان نے تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ جون 2022 میں پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق جو رپورٹ کمیشن میں جمع کروائی گئی تھی وہ تنازعات اور شکوک و شہبات سے بھرپور تھی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے پارٹی آئین سنہ 2017 کے مطابق تمام پارٹی عہدیداران 4 سال کے لیے منتخب ہوئے جن کی مدت 13 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن نے 24 مئی 2021 کو انٹرا پارٹی انتخابات کی یاد دہانی کے لیے نوٹس بھیجا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف صاف و شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی جس کی وجہ سے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج کسی صورت قبول نہیں کیے جا سکتے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف مقررہ وقت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود شفاف انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروا سکی۔
واضح رہے کہ 13 جون سنہ 2021 سے پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن التوا کا شکار تھے۔
آٹھ جون 2022 کو پی ٹی آئی نے پارٹی آئین 2019 میں ترمیم کی اور 10 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرونے کے بعد منتخب ممبران کی لسٹ (سرٹیفیکیٹ) الیکشن کمیشن میں جمع کروائی۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پارٹی کے انتخابی نشان ‘بلے’ کو منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔