ہم بھی کیا لوگ ہیں۔۔۔۔

منگل 26 دسمبر 2023
author image

وسعت اللہ خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کنفیوژن میں رکھنا، کنفیوژن میں رہنا، کنفیوژن پھیلانا اور کنفیوژن دُور نہ کرنا اور کنفیوژن دُور کرنے کی ہر کوشش کی حوصلہ شکنی کرنا، یہ ہمارے قومی ڈی این اے کا حصہ ہے اور پھر اس بات پر افسردہ بھی ہونا کہ ہم کنفیوز کیوں رہتے ہیں۔

مثلاً کل ہی 25 دسمبر گزرا۔ ہر برس کی طرح اس بار بھی حسبِ معمول کسی نہ کسی نے سوشل میڈیا پر اس سوال کا کھرنڈ اتارنے کی کوشش کی کہ جناح صاحب 25 دسمبر کو ہی پیدا ہوئے تھے یا نومبر کی کسی تاریخ کو پیدا ہوئے تھے۔

محقق کلیم لاشاری، رضوان احمد، عقیل عباس جعفری اور سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے محقق سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی شیخ کی یہ بحث بھی بطور ریفرنس ایک بار پھر ابھاری گئی کہ جناح صاحب کھارادر کے وزیر مینشن میں پیدا ہوئے تھے کہ ساتھ والی علی منزل میں یا پھر ٹھٹھہ کے گاؤں جھرک میں سندھو ندی کے کنارے۔

بھٹو صاحب کے دور میں مطالعہ پاکستان کی ایجاد سے پہلے سندھ ٹیکسٹ بورڈ کے اسکولی نصاب میں جناح صاحب مسلسل جھرک میں اور باقی پاکستان کے بچوں کے لیے وزیر مینشن میں پیدا ہوتے رہے۔

میں سن 2000 میں جھرک گیا تو وہاں پرانی وقتوں سے آباد اسماعیلی کمیونٹی کے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ایک کہنہ پرائمری اسکول بھی دکھائی دیا۔ قریب ہی ایک خالی پلاٹ بھی پڑا تھا۔ اس کے بارے میں ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ یہاں وہ مکان تھا جس میں جناح صاحب کی پیدائش ہوئی۔ تب ٹھٹھہ کراچی ڈویژن کا حصہ تھا مگر بعد میں جن صاحب نے جناح پونجا سے وہ مکان خریدا انہوں نے اسے منہدم کردیا، نئی عمارت کھڑا کرنے کے خیال سے۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ہمارے پاس وہ رجسٹر بھی اوریجنل حالت میں تھا جس میں محمد علی جناح کا بطور ابتدائی درجے کے طالبِ علم اندراج تھا مگر بھٹو صاحب کے دور میں 1976 میں قائداعظم کی صد سالہ تقریبات سے سال بھر پہلے اسلام آباد سے ایک سرکاری ٹیم آئی اور وہ رجسٹر یہ کہہ کر اپنے ساتھ لے گئی کہ ہم اسے نیشنل آرکائیوز میں رکھیں گے اور آپ کو اس کی ایک نقل بھجوا دیں گے۔ وہ رجسٹر واقعی نیشنل آرکائیوز میں ہے یا نہیں؟ ہمیں تو آج تک اس کی نقل نہیں ملی۔

مطالعہِ پاکستان کی درسی کتاب متعارف ہونے کے بعد سے جناح صاحب آج تک وفاقی سطح پر وزیر مینشن میں پیدا ہورہے ہیں مگر اس بحثم بحثی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ہم تو اسی کنفرمیشن میں خوش ہیں کہ وہ جہاں بھی پیدا ہوئے بلاخر ہوگئے اور یہ بھی طے ہے کہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ لہٰذا اب یہ چھیچھا لیدر ختم ہوجانی چاہیے۔

یہ محض کسی ایک تاریخ کا گڑبڑ گھٹالہ نہیں ہے بلکہ 23 مارچ کی قراردادِ پاکستان کا بھی یہی قصہ ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ سر ظفراللہ خان نے ڈرافٹ کی تھی، کوئی کہتا ہے کہ ایک کمیٹی نے مشترکہ طور پر ڈرافٹ کی تھی۔ اس میں آزاد اسٹیٹس کا لفظ بھی شامل ہے۔اس سے مراد آزاد ریاستیں ہیں یا صوبے؟

1946 میں اس کی وضاحت کے لیے مسلم لیگ کونسل نے ایک اور ضمیمہ نما قرارداد میں اصل قرارداد کی اصلاح کی تو ایک نیا سوال پیدا ہوگیا کہ اوریجنل قرارداد میں شامل اصطلاحات میں سے صرف ایک اصطلاح کو ہی 6 برس بعد کیوں بدلا گیا وغیرہ وغیرہ۔

کیا واقعی یہ قرارداد 23 مارچ کو منظور ہوئی یا 23 مارچ کو پیش ہوئی اور 24 مارچ کو رات گئے طویل بحث کے نتیجے میں منظور ہوئی۔ مؤرخوں کا کہنا ہے کہ دراصل 24 کو منظور ہوئی جبکہ مطالعہ پاکستان کا کہنا ہے کہ 23 کو ہی متعارف ہوئی اور اسی دن منظور ہوگئی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ یومِ پاکستان کی پیدائش 1956 کے آئین کے ٹوٹنے کے بعد ہوئی۔

آئین 23 مارچ 1956 کو نافذ ہوا اور 1957 اور 1958 میں اس دن کو بطور یومِ جمہوریہ منایا گیا۔ جب اکتوبر 1958 میں ایوبی اسکندری مارشل لا نافذ ہوا تو آئین رخصت ہوا مگر تاریخ باقی رپ گئی چنانچہ 23 مارچ کے ساتھ 1940 فٹ کرکے اسے یومِ پاکستان بنا دیا گیا۔ اگر 1956 کا آئین نہ ٹوٹتا تو شاید آج بھی یہ دن یومِ جمہوریہ کہلاتا جیسے 26 جنوری بھارت کا یومِ جمہوریہ ہے۔

کیا ہم 14 اگست کو آزاد ہوئے یا 15 اگست کو؟ شاہِ برطانیہ نے جولائی 1947 میں جو انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ جاری کیا اس کے مطابق 15 اگست کو 2 آزاد مملکتیں وجود میں آنی تھی۔ جناح صاحب کا جو تہنیتی پیغام ریڈیو سے نشر ہوا اور آج بھی یوٹیوب پر موجود ہے اس میں وہ 15 اگست کہتے ہوئے قوم کو یومِ آزادی کی مبارک باد دے رہے ہیں، مگر اگلے برس عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہمارا یومِ آزادی 15 نہیں 14 اگست ہے۔ یہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اس کی منطق آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آئی۔

کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایک خربوزے کو بیچ میں سے ایک ہی وقت کاٹا جائے تو اس کا ایک ٹکڑا ایک دن کے فرق سے دوسرے ٹکڑے سے الگ ہو؟ اگر یہ ممکن ہے تو پھر کچھ بھی ممکن ہے۔

البتہ ایک تاریخ پر سب کا اتفاق ہے اور وہ ہے 16 دسمبر 1971، مگر مشکل یہ ہے کہ وہ گزیٹڈ ہالیڈیز کی فہرست میں کبھی بھی شامل نہیں رہی حالانکہ اسے باآسانی یومِ تجدیدِ عہدِ پاکستان یا یومِ نیا پاکستان کا چولا پہنا کر اپنایا جاسکتا تھا مگر اس میں بھی اتنی نزاکتیں ہیں کہ ہمارا بس چلے تو دسمبر کا کیلنڈر ہی بدل دیں اور 15 دسمبر کے بعد ڈائریکٹ 17 دسمبر تک پہنچ جائیں۔ آج بھی کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔ ایسی کون سی انہونی ہے جو اس مملکتِ خداداد میں ہونی میں تبدیل نہیں ہوئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسعت اللہ خان معروف پاکستانی صحافی، کالم نگار اور تجزیہ کار ہیں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp