سانحہ 27 دسمبر: بی بی پر حملے کے بعد وہاں کیا ہوا؟

بدھ 27 دسمبر 2023
author image

فیصل کمال پاشا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

27 دسمبر 2007 مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کی المناک شہادت کا دن ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی جلسے سے روانگی کے وقت بے رحمانہ انداز میں شہید کر دیا گیا۔

راقم الحروف کو اس وقت عملی صحافت میں قدم رکھے ہوئے چند ہی ماہ ہوئے تھے اور اس لحاظ سے اتنے بڑے سانحے کو دیکھنا اور رپورٹ کرنا ایک بالکل الگ نوعیت کا تجربہ تھا کیونکہ بی بی کی شہادت اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے پاکستانی سیاست کو بدل کے رکھ دیا تھا۔

میں اس وقت ایک انگریزی اخبار دی نیوز کے ساتھ منسلک تھا اور اخبار کا دفتر راولپنڈی کے لیاقت باغ کے بالکل سامنے واقع تھا۔ دی نیوز میں میرا رپورٹنگ کا ایریا عدالتی خبریں تھیں لیکن اس کے ساتھ صحافت میں ایک نوارد کی حیثیت سے صحافت سے جڑے دیگر موضوعات خاص طور پر سیاست کے بارے میں بھی خاصی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔ اور اسی دلچسپی کے تحت جب محترمہ بینظیر بھٹو کے جلسے کا اعلان ہوا تو ہم انہیں دیکھنے اور سننے کے لیے خاصے بے تاب تھے۔

27 دسمبر کی دوپہر جلسے سے تھوڑی دیر قبل ہم کچھ دوست راولپنڈی پریس کلب میں موجود تھے جہاں 2008 میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے صحافیوں کے مابین بات چیت چل رہی تھی۔ راولپنڈی پریس کلب جو لیاقت باغ کے ساتھ متصل ہے اورایک طرح سے لیاقت باغ ہی کا حصہ ہے، اس کی چھت سے لیاقت باغ اور وہاں ہو رہے جلسے کا بالکل درست نظارہ ممکن تھا، سہ پہر میں جلسے کا ماحول بننا شروع ہوا اور لوگوں کی آمدورفت شروع ہوئی لیکن پنڈال ابھی بھی خالی خالی سا تھا، جس پر کچھ صحافی دوست متعجب تھے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا جلسہ قدرے چھوٹا معلوم ہوتا ہے لیکن پھر محترمہ کی تقریر تک جلسہ گاہ بھر چکی تھی اور پنڈال کے باہر بھی کافی لوگوں کا ہجوم تھا۔

اتفاق سے اسی دن میاں نواز شریف کا جلسہ بھی راولپنڈی کے چوہڑ چوک میں تھا اور کچھ صحافی وہاں مامور تھے لیکن میڈیا کی زیادہ موجودگی بہرحال لیاقت باغ ہی میں تھی۔ لیکن اس کے باوجود صحافی دوستوں میں اس موضوع پر بات چیت چل رہی تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا جلسہ بڑا ہے یا میاں نواز شریف کا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی تقریر ختم ہوئی تو میں پیدل ہی دفتر کی طرف چل پڑا، دفتر کے سامنے پہنچا تو اچانک زوردار دھماکے اور فائرنگ کی آوازیں آئیں۔ میں فوراً لیاقت باغ کی طرف پلٹا تو دور سےکچھ جلی ہوئی لاشیں اور کچھ زخموں سے کراہتے لوگ دیکھے جو بہت ہی خوفناک منظر تھا۔ لیکن اس سے پہلے کچھ لوگوں کو دھماکے کے فوراً بعد وہاں سے بھاگتے دیکھا۔ دھماکے سے پھیلنے والی تباہی نے لوگوں کے ذہن ماؤف کر دیے تھے اور کچھ لوگ اول فول بکتے ہوئے جا رہے تھے، ایسے ہی کچھ لوگ بے ربط قسم کی باتیں اور کچھ نعرے لگا رہے تھے، ریسکیو 1122 کی ٹیمیں وہاں کام شروع کر چکی تھیں، لیکن اس وقت تک کسی کو یقین نہیں تھا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا سانحہ ہو چکا ہے۔ وہاں سے سیدھا دفتر پہنچا تو پتا چلا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کو زخمی حالت میں راولپنڈی جنرل اسپتال لے جایا جا چکا ہے۔ دفتر کے باہر کھڑی موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور میں اسپتال جا پہنچا جہاں آپریشن تھیٹر میں محترمہ کو لے جایا گیا تھا لیکن وہاں اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی، تھوڑی دیر میں مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے لوگ بھی اسپتال پہنچنا شروع ہو گئے اور کچھ دیر میں جب یہ خبر کنفرم ہو گئی کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید ہو گئی ہیں تو وہاں موجود ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، تھوڑی دیر میں میاں نواز شریف کے جلسے پر فائرنگ کی اطلاع بھی آئی لیکن میاں نواز شریف وہاں آئے تو میں بھی دیگر صحافیوں کے ساتھ وہاں موجود تھا، وہاں لوگ میاں نواز شریف سے انتخابات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے تھے، میاں نواز شریف محترمہ کی شہادت سے بہت دکھی نظر آ رہے تھے اور پھر انہوں نے وہاں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا لیکن اس کے بعد نا صرف پاکستان مسلم لیگ نواز بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی فروری 2008 کے انتخابات میں حصہ لیا۔

یہ سارے مناظر دیکھنے کے بعد جب واپس دفتر جانے کا سوچا تو راولپنڈی جنرل اسپتال جسے اب بینظیر بھٹو شہید اسپتال کہتے ہیں، کے باہر شدید ترین ہنگامہ آرائی کے مناظر تھے۔ پنجاب پولیس کی ایک بس اپنے اہلکاروں کو لے کر وہاں پہنچی تھی جس کا مقصد ہنگامہ آرائی پر قابو پانا تھا لیکن اس وقت فضا اس قدر جذباتی تھی کہ لوگوں نے پولیس کی بس پر حملہ کر دیا اور اس کے شیشے توڑ دیے، کچھ مظاہرین نے سڑک پر کھڑی موٹرسائیکلوں کو توڑنا شروع کر دیا، میری موٹر سائیکل بھی وہیں کھڑی تھی جو خوش قسمتی سے محفوظ رہی، میں وہاں سے نکلا اور مری روڈ سے ہوتا ہوا اپنے دفتر پہنچا لیکن اس وقت پورا مری روڈ ہنگاموں کی زد میں آ چکا تھا، کہیں پولیس پر پتھراؤ ہو رہا تھا اور کہیں ٹائر جلائے جا رہے تھے، اس بارے میں کچھ خبر کرنے کے بعد گھر کے لیے نکلا تو پورا شہر خاص طور پر مری روڈ مکمل طور پر ہنگاموں کی زد میں آ چکا تھا۔

28 دسمبر کو میں نے ڈان اخبار کے ایک صحافی دوست کے ساتھ شہر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے بارے سوچا تو کئی جگہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے سڑکیں بلاک کی گئی تھیں اور جگہ جگہ مشتعل مظاہرین پولیس پر پتھراؤ کر رہے تھے، جبکہ پولیس جوابی طور پر آنسو گیس کے شیل فائر کر رہی تھی۔ پورا مری روڈ آنسو گیس سے بھرا ہوا تھا اور سانس لینا خاصا دشوار ہو رہا تھا، خیر منہ پہ رومال باندھ کر بائیک چلاتے رہے لیکن ایک اور مشکل مرحلہ پتھراؤ سے بچنے کا بھی تھا، محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے جہاں پورے ملک میں غم اور سوگ کا ماحول تھا وہیں محترمہ ان کی شہادت میں ملوث قوتوں کے خلاف لوگوں میں بہت اشتعال اور غم و غصہ تھا۔ ان کی شہادت کے تین چار روز تک راولپنڈی میں ہنگامہ آرائی چلتی رہی اور پھر جب یہ ہنگامی آرائی زرا تھمی تو لوگوں نے محترمہ کی جائے شہادت پر آنا شروع کیا، میں نے وہاں ہر عمر اور طبقے کے لوگوں کو آکر پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا ہے، ان کی جائے شہادت پر پھول رکھے جاتے اور موم بتیاں جلائی جاتیں۔ یقیناً ایک اتنی بڑی شخصیت کا عین انتخابات سے کچھ عرصہ قبل اندوہناک قتل ایسا واقعہ تھا جس نے ہمارے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp