اسحاق ڈار نے خسارے کے شکار اداروں کی نجکاری نہیں ہونے دی، محمد زبیر

بدھ 27 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر نجکاری محمد زبیر نے کہا ہے کہ نواز شریف کے سابقہ دور حکومت میں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی فیسکو کی نجکاری آخری مراحل میں تھی لیکن اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان اداروں کی نجکاری کو روک دیا تھا۔

نجی چینل ’اے آر وائی‘ کے ایک پروگرام  میں گفتگو کرتے ہوئے محمد زبیر نے کہا کہ ملکی اداروں کی بدحالی کو ٹھیک کرنے کے لیے 2 ہی طریقے ہیں کہ ان کی ری اسٹرکچرنگ کی جائے یا پھر حکومتی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے شروع ہی سے معاشی مسائل کے حل کے لیے نجکاری کو ضروری سمجھا ہے، کھربوں روپے کے نقصان کا براہ راست عوام پر اثر پڑتا ہے اور انہیں یہ نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اور حکومت کو وہ پیسے کہیں اور سے پورے کرنا پڑتے ہیں۔

’جب وزیر بنا تو وزارت نجکاری کو تالے لگے ہوئے تھے‘

محمد زبیر نے کہا کہ 2013ء میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے انہیں وزارت نجکاری کی ذمہ داری سونپی۔ اس وقت وزارت میں تالے لگے ہوئے تھے جس کی وجہ 2006ء میں چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کا وہ فیصلہ آیا جس کے تحت پاکستان اسٹیل ملز کی نجکاری ہونے کے باوجود یہ عمل ریورس کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے اسٹیل ملز، نجکاری عمل اور پاکستان کے امیج پر اس قدر برے اثرات پڑے تھے کہ پاکستان میں نجکاری کا عمل 7 برس تک بند رہا۔

’ن لیگ کے منشور کے مطابق 70 سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا تھی‘

محمد زبیر نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو دوبارہ سے نجکاری کا آغاز، وسائل کا بندوبست اور عالمی اداروں کو قائل کرنے کے چیلنجز درپیش تھے جس کے لیے وہ سب سے پہلے نیویارک اور لندن کے دوروں پر گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے منشور کے مطابق انہوں نے اور ان کی ٹیم نے نجکاری کے لیے 65 سے 70 سرکاری اداروں کا تعین کیا، فنانشل ایڈوائزرز نے اس حوالے سے بہت کام کیا۔ سب سے اہم یہ تھا کہ انہیں وزیراعظم  نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی کہ 5 سال میں ان اداروں کی نجکاری مکمل کرنی ہے۔

مزید پڑھیں

محمد زبیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرکم تھے۔ پاکستان نے کیپیٹل مارکیٹ ٹرانزیکشنز مکمل کرنا تھیں لیکن اس کے باوجود وزارت نجکاری نے 2 بڑے بینکوں کی ٹرانزیکشنز مکمل کیں جس پر پاکستان کو ایشیا پیسیفیک کے بہترین ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

’فیسکو کی نجکاری کی پیشکشیں کھولنا باقی رہ گیا تھا مگر۔۔۔‘

انہوں نے کہا کہ بطور وزیر نجکاری انہیں پاکستان اسٹیل ملز، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) اور نجلی کی ترسیل کی 9 ڈسٹری بیوشن کمپنیوں خصوصاً فیسکو کی نجکاری کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ حکومت کا خیال تھا کہ ان اداروں کی نجکاری ہوگئی تو باقی اداروں کی نجکاری کرنے میں مسائل کا سامنا نہیں ہوگا۔ اس وقت عالمی ادارے پاکستان کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ 2015ء میں حکومت اسٹیل ملز، فیسکو اور پی آئی اے کی نجکاری کے آخری مرحلے میں تھی جبکہ فیسکو کی نجکاری سے متعلق مقامی اور غیرملکی بولی دہندگان کی پیشکشیں بھی آچکی تھیں اور اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے صرف پیشکشوں کو کھولا جانا باقی رہ گیا تھا، اسی طرح اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بھی کام مکمل کرلیا گیا تھا اور ملازمین بھی مان چکے تھے، روڈ شوز بھی جاری تھے مگر آخری مرحلے میں ان تینوں اداروں کی نجکاری کو روک دیا گیا۔

’نجکاری روکنے کا فیصلہ اسحاق ڈار کا تھا‘

ایک سوال کے جواب میں محمد زبیر نے بتایا کہ نجکاری کے لیے ایک بورڈ ہوتا ہے جو کابینہ کی نجکاری سے متعلق کمیٹی کے تحت کام کرتا ہے، اس وقت اس کمیٹی کے سربراہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے۔ اس کے علاوہ اس کمیٹی میں احسن اقبال، مفتاح اسمٰعیل، شاہد خاقان عباسی، گورنر اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کے چیئرمین بھی شامل تھے۔ اس کمیٹی کے پاس  نجکاری کے فیصلوں کا اختیار تھا، فیسکو کی نجکاری روکنے کا فیصلہ اسحاق ڈار کا تھا جس کا مطلب یہی تھا کہ اداروں کی نجکاری بھی نہیں ہو پائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری بھی آخری مراحل میں تھی لیکن اسحاق ڈار نے کہا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری کے بجائے اسے حکومت سندھ کے حوالے کردیا جائے جو کہ اصل میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی خواہش تھی، تاہم حکومت نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے فیصلے کے مطابق حکومت سندھ کو اسٹیل ملز کی ملکیت کی پیشکش کی گئی جس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو خطوط لکھے گئے، کئی ماہ تک حکومت سندھ کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی، آخرکار حکومت سندھ مان گئی لیکن شرط رکھی کہ اسٹیل ملز کی ادائیگیاں وفاقی حکومت کے ذمہ ہوں گی، چونکہ یہ حقیقت میں نجکاری تھی ہی نہیں لہٰذا یہ فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا۔

’شاید یہ وقت دوبارہ پھر کبھی نہ آئے‘

پی آئی اے کی نجکاری سے متعلق محمد زبیر نے بتایا کہ حکومت نے ایک پارلیمینٹری کمیٹی بنائی تھی جس میں وہ خود، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور سیکریٹری نجکاری احمد نواز سکھیرا کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بھی شامل تھے لیکن اپوزیشن حکومت کے نجکاری کے فیصلے کے خلاف تھی۔ اس کمیٹی کے آخری اجلاس میں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ  یہ وقت نجکاری کے لیے موزوں نہیں تو حکومت اس فیصلے نجکاری کا عمل روک دے گی۔ محمد زبیر نے کہا کہ اس اجلاس میں ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ شاید یہ وقت پھر کبھی دوبارہ نہ آئے۔

ایک سوال کے جواب میں محمد زبیر نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وزیراعظم نواز شریف اسحاق ڈار کے فیصلوں سے آگاہ تھے۔ اس طرح کے معاملات میں سیاسی وجوہات آڑے آتی ہیں۔ خورشید شاہ، پیپلز پارٹی یا حکومت سندھ کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کا صرف گزشتہ سال کا نقصان 90 ارب روپے تھا اور آئندہ مالی سال میں یہ نقصان 120 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ یہ نقصان کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے عوام برداشت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی ارادوں میں پختگی کی ضرورت  ہوتی ہے۔ نواز شریف نے اس وقت اپنے اس ارادے کا اظہار کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp