فلسطینی مزاحمت کی علامت ’کوفیہ‘ امریکا میں کس قدر مقبول ہورہا ہے؟

بدھ 27 دسمبر 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

7 اکتوبر کے بعد اسرائیل کی غزہ میں جارحیت کے بعد فلسطینیوں کی مزاحمت کی علامت سمجھا جانے والے رومال ’کوفیہ‘ کی امریکا میں فروخت میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، امریکا میں مقیم فلسطینی فخریہ طور پر کوفیہ پہن رہے ہیں۔

ای کامرس تجزیاتی فرم جنگل سکاؤٹ کے مطابق فلسطینیی مزاحمت کی علامت سمجھا جانے والے رومال ’کوفیہ‘ کے لیے آن لائن سرچ میں 68 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کی فروخت میں 75 فیصد اضافہ ہوا ہے، دوسری طرف امریکا میں کوفیہ پہننے والوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔۔

کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز ایڈوکیسی گروپ نے متعدد ایسے واقعات پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے کہ لوگوں کو  محض کوفیہ پہننے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بروکلین کے کھیل کے میدان میں ایک شخص پر حملہ کیا گیا جس نے کوفیہ پہن رکھا تھا، ہارورڈ کی ایک گریجویٹ طالبہ کو بتایا گیا کہ اس نے ‘دہشت گرد’ رومال پہن رکھا ہے، اس کا رومال ایک سیکیورٹی افسر نے زبردستی ہٹا دیا۔

سب سے سنگین واقعے میں امریکی ریاست میں فلسطینی طلباء کے ایک گروپ کو  جن میں سے دو کوفیہ پہنے ہوئے تھے، کو ریاست ورمونٹ میں پیش آیا جہاں فلسطینی طلبا و طالبات  کو کوفیہ پہننے پر گولی مار دی گئی۔

جاں بحق ہونے والے سے ایک طالب علم کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے پر حملہ نہ ہوتا اگر وہ ‘اس طرح کے کپڑے نہ پہنتا اور عربی میں بات نہ کرتا۔’

کوفیہ کی تاریخ

مورخین کے مطابق کوفیہ کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ سے ہوئی اور اسی کی وجہ سے کوفیہ کا نام پڑا، ابتدا میں اس کی وجوہات سیاسی یا ثقافتی نہیں تھیں۔

20ویں صدی کے آغاز پر کوفیہ کو دیہات کے شہری یا عرب بدو سورج کی حدت، تیز ہوا، صحرا کی ریت یا سردی سے بچنے کے لیے اوڑھا کرتے تھے۔

تحقیق کے مطابق 1930 کے آس پاس کوفیہ کی اہمیت فلسطینی معاشرے میں بڑھنا شروع ہوئی اور تب ہی اس کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔

پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین سمیت مشرق وسطی کا بیشتر حصہ لیگ آف نیشنز کے فیصلے کے تحت مختلف اتحادی قوتوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، جس کے بعد فلسطین 1920 سے 1948 تک برطانیہ کے زیر اثر رہا۔ تاہم اس دوران مقامی فلسطینیوں میں بے چینی بڑھتی گئی کیوں کہ ان کے خیال میں برطانیہ صیہونی منصوبے کی حمایت کر رہا تھا جس کے تحت اس خطے میں ایک یہودی ملک قائم کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔

مشرق وسطی کی جانب بڑی تعداد میں یہودی آبادکاروں نے بھی رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس بے چینی کے باعث ہی عرب قوم پرستوں نے بغاوت کی جسے ’عظیم عرب بغاوت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔

نیدرلینڈ کی مورخ جین ٹائنین کے مطابق اس دوران خطے میں تناؤ بڑھا اور کوفیہ نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا، فلسطینی برطانیہ سے مایوس ہو چکے تھے اور مزاحمت کر رہے تھے، اس دوران یہ ضروری تھا کہ مزاحمت کرنے والوں کی شناخت ممکن نہ ہو اور یوں کوفیہ برطانوی حکام کو کنفیوز کرنے کی حکمت عملی کا اہم جزو بن گیا۔‘

1938 میں بغاوت کے سربراہوں نے تمام عرب باشندوں کو کوفیہ پہننے کا حکم دیا۔ ’یوں ایک شخص کو دوسرے سے ممتاز کرنا مشکل ہو گیا اور باغیوں کے لیے نقل و حرکت آسان ہو گئی کیوں کہ برطانوی حکام مکمل طور پر اس حمکت عملی سے کنفیوز ہو گئے۔‘

برطانیہ نے کوشش کی کہ کوفیہ پر پابندی عائد کر دی جائے تاہم اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ کوفیہ ایک موثر عسکری حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن یہ ایک متحدہ مزاحمتی تحریک کی علامت بھی بن گیا۔‘

کوفیہ بین الاقوامی سطح پر کیسے مشہور ہوا؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق 1930 کی بغاوت کے بعد کوفیہ فلسطینی شناخت کا لازم و ملزوم حصہ بن گیا۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ نکبہ کے باعث، جب اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا، اس علامت کی شدت میں اضافہ ہوا۔

تاہم 1960 سے قبل کوفیہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ مشہور نہیں تھا۔ عالمی سطح پر کوفیہ کی شہرت کا سہرا یاسر عرفات کو دیا جاتا ہے جو بذات خود فلسطینی مزاحمت کا چہرہ بنے۔

یاسر عرفات کی کوئی تصویر ایسی نہیں جس میں ان کو کوفیہ کے بغیر دیکھا جا سکے۔ شام، اردن اور لبنان میں انہوں نے یہی رومال پہنے لڑائی لڑی جبکہ 1974 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی حق خود ارادیت پر تقریر کرتے وقت بھی انہوں نے کوفیہ پہن رکھا تھا۔ 20 سال بعد جب ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تب بھی وہ کوفیہ اوڑھے نظر آئے۔

جین کا کہنا ہے کہ ’یاسر عرفات کوفیہ اوڑھ کر ایک سیاسی بیانیہ دیتے تھے۔ وہ احتیاط سے اسے اس طرح اوڑھتے کہ دائیں کندھے پر ایک تکون کی شکل بنتی جو 1948 سے قبل فلسطین کے نقشے جیسا لگتا۔‘

جب 1967 کی چھ دن کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی حکام نے فلسطینی پرچم پر پابندی لگائی تو کوفیہ کی علامتی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔

جیسے جیسے فلسطینیوں کی اجتماعی شناخت اور ان کی زمین پر ان کے حق کو لاحق خطرات بڑھتے گئے، کوفیہ جیسی ثقافتی علامات جو اتحاد اور شناخت کی علامت تھیں، زیادہ اہم ہوتی چلی گئیں۔

یوں فلسطین کے حق میں بننے والے پوسٹرز اور سیاسی تصاویر میں کوفیہ نظر آنے لگا اور خواتین نے بھی اسے اوڑھنا شروع کر دیا۔

1973 کی ایک تصویر بین الاقوامی طور پر کافی مشہور ہوئی جس میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی رکن، لیلی خالد، کلاشنکوف تھامے اور کوفیہ پہنے نظر آئیں۔

لیلی خالد نے بعد میں برطانوی اخبار گارڈیئن کو وضاحت دی کہ ایک خاتون ہونے کے ناتے وہ یہ دکھانا چاہتی تھیں کہ مسلح جدوجہد میں وہ مردوں کے برابر ہیں۔ ’اسی لیے ہم ظاہری شناخت میں بھی مردوں جیسا نظر آنا چاہتے ہیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp