حماس کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں جہاں اسرائیلی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے وہیں اسرائیلی معیشت بھی مشکلات سے دو چار ہے جس میں رواں سہ ماہی کے دوران 2 فیصد کی شرح سے کمی کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے اسرائیلی غیرجانبدار تھنک ٹینک ’تاؤب سینٹر فار سوشل پالیسی اسٹڈیز‘ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ کی وجہ سے اسرائیل میں لاکھوں کارکنان بے گھر ہو گئے ہیں یا انہیں ریزرو فوجی قرار دیدیا گیا ہے، اکتوبر میں تقریباً 20 فیصد اسرائیلی ورک فورس لیبر مارکیٹ سے غائب ہے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے اسرائیلی لیبر مارکیٹ میں ورک فورس کی کمی 3 فیصد تھی۔
اب تک 9 لاکھ اسرائیلی بے روزگار ہوئے
رپورٹ کے مطابق حماس کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل میں تقریباً 9 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے جن میں سے بعض کو جنگ کے لیے بلایا گیا، بعض اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی رہے کیونکہ اسکول بند ہو چکے تھے۔ ان میں وہ اسرائیلی بھی شامل تھے جو لبنان اور غزہ کی سرحدوں کے قریب واقع بستیوں سے نکل بھاگے تھے یا صنعتوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے وہ اپنا روزگار کھو چکے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اکتوبر کے بعد سے بعض طلبہ واپس اسکول جانے اور بعض بے گھر اسرائیلی گھر میں بیٹھ کر کام کرنے کے قابل ہوئے ہیں لیکن اس معاشی دھچکے کے مضمرات اہم ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اس وقت جب جنگ ختم ہوتی نظر نہیں آرہی۔
مفروضوں پر قائم کیے گئے مثبت اندازے
اسرائیلی تھنک ٹینک کے اندازے کے مطابق آئندہ مالی سال میں ترقی کا تخمینہ اس سے کم ہے جو جنگ شروع ہونے سے پہلے لگایا گیا تھا لیکن اس کی حدود مختلف ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معیشت میں صرف 0.5 فیصد تک بہتری آسکتی ہے۔ بینک آف اسرائیل نے گزشتہ لڑائیوں اور کورونا وبا کے بعد اسرائیل کی توقع سے زیادہ تیزی سے معیشت کی بحالی کا حوالہ دیتے ہوئے آئندہ سال معیشت میں غالباً 2 فیصد کا سب سے زیادہ مثبت تخمینہ لگایا ہے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں ریسرچ کے نائب صدر اور بینک آف اسرائیل کے سابق گورنر کارنیٹ فلگ کا کہنا ہے کہ جو وسیع اندازے پیش کیے جارہے ہیں وہ کچھ مختلف مفروضوں پر قائم کیے گئے ییں جیسا کہ حماس کے ساتھ جنگ کتنی طویل اور شدید ہوگی۔
اسرائیلی ریزرو فوجیوں کو بے روزگاری اور موت کا خوف
گزشتہ اتوار تک کے اعداد و شمار کے مطابق، 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل میں 191,666 افراد نے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں جمع کرائیں جن میں اکثریت نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں زبردستی بلا معاوضہ چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
اکتوبر میں تقریباً 360,000 اسرائیلی ریزرو فوجیوں کو ڈیوٹی کی اجازت دی گئی، 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہ اسرائیلی فوجیوں کی سب سے بڑی نقل و حرکت تھی، اس سے قبل مصر اور شام کے ساتھ جنگ میں 4 لاکھ ریزرو فوجیوں کو طلب کیا گیا تھا۔ توب سینٹر کے اندازے کے مطابق، اس بار ڈیوٹی کے لیے بلائے گئے ریزرو فوجیوں کی اصل تعداد 2 اور 3 لاکھ کے درمیان تھی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جنگ کے لیے اچانک بلائے جانے کے باعث متعدد اسرائیلی ہلاک ہوئے اور کئی آجران کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی حکومت نے بہت سے متاثرہ افراد اور کمپنیوں کو کچھ مالی امداد فراہم کی ہے لیکن اضافی گرانٹس کی فراہمی میں سست روی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب کچھ ریزرو فوجیوں کے اپنے کاروبار ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ انہیں انتظار کرنے کو کہا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے اپنے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں۔
کھیتوں میں سبزیاں اور پھل جمع کرنےو الا کوئی نہیں
اسرائیلی ادارہ شماریات کے مطابق اکتوبر میں درمیانے درجے کی صنعت میں کام کرنے والے کارکنان کی تعداد کے پانچویں حصے کو ریزرو فوج میں شمولیت کے لیے کال کی گئی، ان صنعتی یونٹس میں کم سے کم 100 مزدور کام کرتے ہیں جبکہ یہ صنعتیں نصف سے زائد اسرائیلی ورک فورس پر مشتمل ہیں۔
اس وقت اسرائیل کو سیاحت، تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں ورکرز کی شدید قلت ک سامنا ہے، اسرائیل کے تعمیراتی اور زراعت کے شعبوں کا انحصار فلسطینی ورکرز پر ہے لیکن 7 اکتوبر کے بعد ان ورکرز کے اسرائیل میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اس وقت اسرائیلی زرعی فارمز پر سبزیاں اور پھل پک کر تیار ہوچکے ہیں لیکن انہیں توڑنے اور جمع کرنے والا کوئی نہیں ہے۔