قیام پاکستان کے بعد انڈیا کی ریاست اُتر پردیش سے محمد ضمیر خان پاکستان آئے اور خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں رہائش اختیار کی۔ ضمیر خان اُترپردیش کے علاقے بدایون سے تعلق رکھتے تھے اور وہاں کی روایتی مٹھائی بنانے کے ماہر تھے۔ مردان آنے کے بعد محمد ضمیر خان نے مردان کے مقامی شخص کے ساتھ مل کر انڈین مٹھائی بنا کر فروخت کرنا شروع کر دی جو منفرد ذائقے کی وجہ سے لوگ پسند کرنے لگے۔
مردان کے بدایونی پیڑے کے کاروبار سے وابستہ وقار عباس کے والد اور ضمیر خان نے اس کاروبار کا آغاز کیا تھا۔ وقار نے بتایا کہ ان کے والد نے انڈیا سے پیڑے بنانے کا طریقہ سیکھا تھا۔ انہوں نے کہا، ’اصل میں پیڑے انڈین مٹھائی ہیں۔ انڈیا میں بدایون نامی جگہ ہے وہاں اب بھی پیڑے بنتے ہیں‘۔
انہوں نے بتایا کہ 1950 کے بعد پیڑے مردان میں آئے جنہیں لوگوں نے بہت پسند کیا۔ ان کے مطابق مخلتف علاقوں اور صوبوں سے مردان آنے والے واپسی پر پیڑے ضرور لے جاتے ہیں۔ پیڑے کی تیاری میں خالص کھویا استعمال ہوتا ہے۔
مردان کے بینک روڈ پر پیڑے کی متعدد دکانیں ہیں جہاں خریداروں کا رش ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر اب وقار عباس نے پیڑے مشین سے بنانا شروع کر دیے ہیں۔