پاکستان ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شامل ہے اور خراب معاشی حالات کے باعث ملک کے حالات ہر آئے روز مشکل ہوتے جا رہے ہیں، ملک میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ دہشتگردی ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھا رہی ہے، سال 2024 پاکستان میں سیاسی استحکام کے لیے انتہائی اہم سال ہو گا۔
چونکہ اسی سال ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ہے، پاکستان کی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں توسیع بھی متوقع ہے جس کے باعث ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔
مزید پڑھیں
وی نیوز نے معاشی، سیاسی، دفاعی تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کہ سال 2024 میں پاکستان کو کِن چیلنجز کا سامنا رہے گا؟
عام انتخابات کے بعد ریفامز بجٹ پیش کرنا چیلنج ہوگا، خاقان نجیب
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے معاشی ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب نے کہاکہ سال 2024 کے پہلے 6 ماہ میں پاکستان کے لیے 3 اہم چیزیں اہمیت کی حامل ہیں۔
انہوں نے کہاکہ چونکہ 8 فروری کو ملک بھر میں عام انتخابات ہونا ہیں، آئی ایم ایف معائدہ اپریل میں ختم ہو گا جسے مزید توسیع دینے کے لیے کوششیں کی جائیں گی اور پھر بجٹ پیش کیا جائے گا جس میں عوام کے لیے ریلیف دینا لازمی ہو گا، بجٹ میں ٹیکس ریفارمز بھی کرنا ہوں گی، ان تینوں اہم معاملات کو سرانجام دینے کے لیے پاکستان کو ایک قابل ٹیم تیار کرنی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے لیے قابل ٹیم ضروری ہے
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ آنے والے 3 سالوں کے لیے معاہدہ بھی ہونا ہے اس لیے بھی ایک اچھی ٹیم کا ہونا ضروری ہے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کے لیے ریفارمز بجٹ پیش کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا، پینشن اور ٹیکس ریفارمز لانا ہوں گی، جو سیکٹر ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا ہے، سال 2024 میں ہونے والے یہ 3 اہم واقعات اگر اچھے طریقے سے سرانجام دے دیے جاتے ہیں تو یہ آئندہ آنے والے سالوں کے لیے بہت بہتر ہو گا، پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے لیکن اگر ان تینوں کاموں میں سے کسی ایک کام میں تاخیر ہوئی تو ملک میں عدم استحکام بڑھے گا اور معاشی حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔
سال 2024 کا سب سے بڑا چیلنج انتخابات کا انعقاد ہے، حسن رضا پاشا
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ حسن رضا پاشا نے کہاکہ سال 2024 کا سب سے بڑا چیلنج عام انتخابات کا انعقاد ہے، سال کی پہلی سہ ماہی میں ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے گا۔ یہ عدلیہ کے حوالے سے بھی بڑا چیلنجنگ رہے گا، پاکستان کے عوام کا اب بھی عدلیہ پر مکمل اعتماد بحال نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی عوام کو صرف عدلیہ سے ہی انصاف کی امید ہے۔
حسن رضا پاشا نے کہاکہ گزشتہ کچھ سالوں سے پاکستان میں یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ ملک کا کوئی بھی سیاسی، معاشی، حتیٰ کہ چینی تک کا مسئلہ عدلیہ میں آ جاتا ہے، عدلیہ کی ذمّہ داری اب پہلے سے انتہائی زیادہ ہو چکی ہے، عدلیہ کے لیے فوجداری اور دیوانی مقدمات کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے لیکن یہ سیاسی اور معاشی معاملات عدلیہ میں آنے سے عدلیہ پر دباؤ بڑھے گا، عدلیہ کو اس دباؤ سے نکلنے کے لیے ججز کی تعداد بڑھانا ہو گی تاکہ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی ہو سکے۔
ملک میں آئندہ بھی سکون نظر نہیں آ رہا
حسن رضا پاشا نے کہاکہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں اس کے مطابق سال 2024 میں سکون نظر نہیں آ رہا۔
سیاسی اور معاشی استحکام ایک چیلنج ہوگا، سہیل وڑائچ
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ سال 2024 میں پاکستان کو 2 انتہائی اہم چیلنجز کا سامنا رہے گا، ایک سیاسی استحکام اور ایک معاشی استحکام، معاشی استحکام کے لیے لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی اور ایک چارٹر آف اکانومی ہونا چاہیے۔ جبکہ سیاسی استحکام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے اور سیاست کے رولز طے کرنے چاہییں، ملک میں اس وقت تاریخی سیاسی عدم استحکام ہے اور سیاسی مخالفین کی دوریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔
سیاستدان تو افغانیوں کو نکالنے کے معاملے پر بھی ایک پیج پر نہیں
سہیل وڑائچ نے کہاکہ پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کا بھی سامنا ہے، ہماری سیاسی جماعتیں اس وقت ایک پیج پر نہیں ہیں، حکومت نے افغانیوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ایک بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کہہ رہے ہیں کہ افغانیوں کو پاکستان سے نہیں نکالنا چاہیے، اگر اس معاملے پر بھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا تو دیگر اہم بڑے معاملات پر اتفاق رائے کیسے ہو گا۔
سہیل وڑائچ نے کہاکہ اس وقت تو توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک بھر میں 8 فروری کو عام انتخابات کا انعقاد ہو جائے گا، انتخابات کے انعقاد میں بڑی رکاوٹیں تو دور کر دی گئی ہیں لیکن دیکھنا ہو گا کہ ان حالات میں کیسے صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔