سال 2024 پاکستان کے لیے بہت اہم سال ہے کیونکہ اس سال فروری میں متوقع عام انتخابات آنے والے دنوں میں ملک کی معاشی سمت کے تعین کی بنیاد فراہم کریں گے، صاف اور شفاف انتخابات کے نتیجے میں عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے معاہدے کے لیے بات چیت کے ساتھ ساتھ مشکل اور سخت فیصلے لینے کی ذمہ داری بھی سرانجام دینا ہوگی تاکہ ملکی معیشت کی سمت کو درست کیا جا سکے۔
دیکھا جائے تو گزشتہ سال پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے معاشی لحاظ سے بہت مشکل ثابت ہوا، ایک جانب پاکستان ڈیفالٹ سے بہت مشکل تب ہی بچ سکا، جب آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر پہنچ پایا، دوسری طرف پاکستانیوں نے تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کیا۔ ورلڈ بینک کے مطابق تقریباً 40 فیصد یعنی 12 کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔
ڈاکٹر وقار احمد کے مطابق پاکستان کی معیشت اس وقت اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اور یہ ڈویلپمنٹ پارٹنرز یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد جو بھی نئی حکومت آئے وہ فوری طور پر آ کر وسط مدتی معاشی پالیسیوں کا اعلان کرے تاکہ اگلے 3 سے 5 سال میں پاکستان کی معاشی سمت کا تعین ہوسکے۔
ڈویلپمنٹ پارٹنرز اور ڈونرز چاہتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہوں تاکہ آنے والی حکومت سنجیدہ معاشی پالیسیوں کا اعلان کرے، اس کے ساتھ ساتھ لگتا ہے کہ ان پارٹنرز سے ملنے والی فنڈنگ بھی اسی صورت میں ملے گی جب الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں۔
مزید پڑھیں
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب سمجھتے ہیں کہ سال 2024 کے پہلے 6 ماہ بہت اہم ہیں، پاکستان کو اگلے 6 ماہ میں 3 بہت اہم کام کرنے ہیں۔ پہلا انتخابات کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل، دوسرا اس نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے نئے معاہدے میں جانا ہے اور تیسرا اس نئی حکومت کو ایک ایسا بجٹ بنانا ہے جو نہ صرف عوامی امنگوں پر پورا اترے بلکہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بھی ٹھیک کرے۔
’دوسرے دونوں مشکل کام کرنے لیے پاکستان کو ایک عوامی مینڈیٹ والی مضبوط حکومت کی ضرورت ہوگی اور صاف شفاف انتخابات ایک ایسا یقین پیدا کریں گے کہ آنے والی حکومت نہ صرف لوگوں کی امنگوں پر پورا اترے بلکہ مشکل فیصلے بھی لے۔‘
ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر ناجی بینہسین نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں لکھا ہے کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث پاکستان اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گیا ہے، غربت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور ترقی کے ثمرات صرف ایک بہت چھوٹے مراعات یافتہ طبقے تک ہی پہنچ رہے ہیں۔
اپنی اس تحریر میں انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا طاقت ور اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ موجودہ بحران کو موقع جانتے ہوئے وہ کام کریں گے جس کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ ان کے خیال میں اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک روشن، خوشحال اور زیادہ پائیدار مستقبل کے خاطر پاکستان اکٹھا ہو۔
ماہر معیشت ڈاکٹر خاقان نجیب کے خیال میں اس سال کے صاف اور شفاف انتخابات پاکستان کو یہ موقع فراہم کر سکتے ہیں جو ایک پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھے، ان کے مطابق پاکستان کی آنے والی حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ یاد رکھے کہ یہ ایک مشکل وقت ہے، جس میں ملک کو وسیع اصلاحات کی ضرورت ہے۔
’پاکستان کی اشرافیہ جس کی تعداد بہت کم ہے اس کی وسائل پر گرفت توڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو واپس 5 سے 7 فیصد ایسی معاشی ترقی کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ بھی نہ ہو اور یہ کام اس الیکشن کے نتیجے میں آنے والی عوامی حکومت کر سکتی ہے۔‘
ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر سے اتفاق کرتے ہوئے ڈاکٹر وقار احمد پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں وسیع پالیسی اصلاحات کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔’سب سے پہلے بجٹ کو دیکھنا ہو گا، اس وقت جو حالات ہیں اس میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے، نئی آنے والی حکومت کو فوراً توانائی کے شعبے میں خسارے سمیت گردشی قرضوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔‘
اسی طرح پی آئی اے ، ریلوے، اسٹیل مل اور دیگر سرکاری اداروں کے خسارے کو کنٹرول کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، اگر ان کو بیچنا ہے تب بھی فیصلہ کرنا ہو گا، ان کو پرائیویٹ مینجمنٹ سے چلانا ہے یا ان کے بورڈز میں تبدیلیاں کرکے ان کو بہتر کرنا ہے تب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ اب ان میں خسارہ سالانہ یا ماہانہ کی بجائے دنوں میں بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر وقار احمد سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت کو ٹیکس وصولیوں کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر، ریئل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں سے اس طرح ٹیکس وصولیاں نہیں ہو پا رہیں جس طرح ہونی چاہیے، اسی لیے آئی ایم ایف بھی بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی حکومت کو یہ مشکل فیصلے لینا ہوں گے۔
ڈاکٹر وقار کے مطابق اس وقت مقامی سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری روکی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی سیکٹر کسی قسم کی پالیسیوں کا اعلان نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کار آنیوالے بجٹ کو بہت غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔ ’اسی طرح بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں پر ڈونرز اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز کتنا اعتماد کریں گے اور اس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ سازی کریں گے۔‘
پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان کی طرف بڑھا جا سکتا ہے تو وہیں دوسری طرف آج کے پاکستان سے بھی بری حالت ہماری منتظر ہے، فیصلہ اس اشرافیہ کو کرنا ہے جس کا ملکی وسائل پر قبضہ ہے، کیا یہ اشرافیہ اپنےوجود سے ماورا ہوکرعوام کو فیصلہ کرنے دے گی یا ماضی ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گا؟ 8 فروری اب زیادہ دور نہیں۔