چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف اور استحکام پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کی نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے مقدمے کی سماعت آج کرے گا۔
بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 13 اپریل 2018 کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ وہ تاحیات ہوگی جبکہ اس وقت بینچ کے سربراہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ قوم اچھے کردار کے مالک قائدین کی مستحق ہے۔ مذکورہ فیصلہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے تناظر میں کیا گیا تھا۔
28 جولائی 2017 کو پاناما مقدمے کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی عہدے کے لیے تاحیات نااہل قرار دیا تھا اور اس کے بعد 5 دسمبر 2017 کو پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین کو بھی تاحیات نااہل قرار پائے تھے۔
11 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے امام قیصرانی بنام میر بادشاہ قیصرانی انتخابی عذرداری کیس کی سماعت کے دوران تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے نوٹس لے کر معاملہ لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کے لیے ججز کمیٹی کو بھیج دیا جس کی سماعت منگل کو ہونے جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عوامی عہدے کے لیے امیدوار کا صادق اور امین ہونا ضروری ہے۔ عدالت سے سزا یافتہ شخص انتخابات میں حصہ لینے یا عوامی عہدے کا اہل نہیں۔ 13 اپریل 2018 کو سپریم کورٹ نے اس نااہلی کی مدت کا تعین کیا تھا جبکہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی مدت 5 سال کر دی تھی۔
سپریم کورٹ نے 11 دسمبر کو تاحیات نااہلی کے معاملے پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیے تھے اور کہا تھا کہ موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں
عدالت نے اپنے تحریری حکمنامے میں کہا تھا کہ سابق ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت سے متعلق تمام مقدمات کی ایک ساتھ سماعت کیے جائیں گے تاکہ اس کیس کے زیر التوا ہونے کے عذر کو الیکشن میں تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہ کیا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر ایک درخواست کی سماعت 27 دسمبر کو ہوئی تھی جس میں درخواست گزار کا کہنا تھا کہ چونکہ توشہ خانہ مقدمے میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ معطل ہے لہٰذا ان کی سزا اور نااہلی بھی معطل کی جائے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ ’نااہلی سے متعلق فیصلہ معطل ہونے سے سزا معطل نہیں ہوتی، ہمارے سامنے درخواست ہے کہ توشہ خانہ کیس کا فیصلہ معطل ہوا تو سزا بھی ختم ہو، فیصلہ معطل ہونے سے سزا ختم ہونے کی کوئی عدالتی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے‘۔
عمران خان کو گزشتہ سال الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں ڈی سیٹ کیا اور پھر اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے اسی مقدمے میں ان کو 3 سال سزا کے بعد، 5 سال کے نااہل کیا تھا۔
11 دسمبر کو سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت کے دوران درخواست گزار میر بادشاہ قیصرانی کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں ان کے مؤکل کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے برقرار رہ سکتی ہے۔
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر 2 آرا ہیں، نیب کیسز میں اگر تاحیات نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟ جس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی 5 سال کی ہوگی۔
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی 5 سال نااہلی ہے۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اجازت دی تھی کہ اگر کوئی پارٹی اس مقدمے میں فریق بننا چاہے تو وہ عدالت میں درخواست دائر کر سکتی ہے۔