سپریم کورٹ میں جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد کے کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری حکمنامہ جاری کردیا ہے اور کیس کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی ہے۔
جبری گمشدگیوں اور لاپتہ افراد سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔
گزشتہ سال نومبر میں سینیئر وکیل اعتزاز احسن سمیت متعدد درخواست گزاروں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں۔ مقدمے کی کارروائی براہ راست سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر نشر کی گئی۔
دوسرے روز سماعت کا آغاز
آج سماعت شروع ہوئی وکیل شعیب شاہین اور سماجی کارکن آمنہ مسعود جنجوعہ بھی روسٹرم پر موجود تھے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ گزشتہ روز عدالت نہ آنے پر معذرت خواہ ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آپ کے کیس میں بہت گہرائی اور تفصیل سے دلائل ہو چکے ہیں۔
اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ درخواست پر اعتراضات ختم کر دیے تھے لیکن ابھی تک نمبر نہیں لگایا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس آگے بڑھائیں، رجسٹرار اعتراضات کیخلاف تحریری آرڈر آج ہی کر دیں گے۔
فیض آباد دھرنا کیس کا ذکر
شعیب شاہین نے لاپتہ افراد سے متعلق ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسیوں کے کردار پر فیض آباد دھرنا کیس میں بھی تفصیل سے لکھا گیا ہے۔چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ فیض آباد دھرنا کیس سے لاپتہ افراد کا کیا تعلق ہے؟
مزید پڑھیں
شعیب شاہین نے دلائل دیے کہ لاپتہ افراد کا براہ راست ذکر نہیں لیکن ایجنسیوں کے آئینی کردار کا ذکر موجود ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا فیصلے میں قانون کے مطابق احتجاج کے حق کی توثیق کی گئی ہے، کچھ دن پہلے مظاہرین کو روکا گیا تھا اس حوالے سے بتائیں۔
شعیب شاہین نے بتایا کہ عدالت نے سڑکیں بند کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے پر کارروائی کا کہا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا حیرت ہے کہ آپ فیض آباد دھرنا کیس کا حوالہ دے رہے ہیں۔
شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے، پہلے دن سے ہی فیض آباد دھرنا فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عدالت عمران ریاض کو بلائے تو کیا وہ پیش ہوں گے، عدالت کا اسفتسار
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس سے پہلے ایک اور کیس تھا، ابصار عالم میڈیا پر بات کر رہے تھے، انہوں نے ہمت پکڑی اور اس عدالت میں آکر بات کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائے تو کیا وہ پیش ہونے کو تیار ہے؟
شعیب شاہین نے عدالت سے عمران ریاض کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے، ’کیا ہم کسی کے لیے کارپٹ بچھائیں گے، اگر کسی کو خدشات ہیں تو ایف آئی آر درج کرائے، ہمارے پاس کوئی فوج کھڑی ہے جو پروٹیکشن دینگے، آپ اسکو سیاسی اکھاڑا نہ بناٸیں، شیخ رشید نے آپکو کیا کہا، دھرنا کیس، الیکشن کیس میں شیخ رشید عدالت آ سکتے ہیں تو اس میں کیوں نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جو اپنے لیے بات نہیں کر سکتے وہ کسی کے لیے کیا بات کریں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمران ریاض کو عدالت بلائیں تو کیا وہ آئیں گے؟
سماجی کارکن آمنہ مسعود نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر عمران منیر نامی ایک لاپتہ شخص نے بازیابی کے بعد بتایا کہ ان کے شوہر وہاں تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں ہم کیا کریں، 18 سال ہو گئے ہم ایسا کیا کریں کہ آپ کی مدد کرسکیں۔
سب سے زیادہ لوگ مشرف دور میں لاپتہ ہوئے، آمنہ مسعود
آمنہ مسعود نے عدالت سے کہا، ’میں صرف اپنے اور بچوں کے لیے سچ جاننا چاہتی ہوں جس پر سپریم کورٹ نے آمنہ مسعود جنجوعہ کی درخواست پر وزارت داخلہ اور دفاع سے جواب مانگ لیا اور ہدایت کی کہ آمنہ مسعود جنجوعہ کے کیس کو سنجیدگی سے لیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 18 سال گزر گئے ہیں، سچائی جاننا آمنہ جنجوعہ کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے آمنہ جنجوعہ سے استفسار کیا کہ سب سے زیادہ افراد کب لاپتہ ہوئے تھے، جس پر آمنہ جنجوعہ نے عدالت کو بتایا کہ مشرف کے دور میں لوگ لاپتہ ہونا شروع ہوئے، پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے دور اور اتحادی حکومت کے دور میں بھی سلسلہ جاری رہا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اب بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں، جس پر آمنہ جنجوعہ نے جواب دیا، ’جی اب بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔
لاپتہ کمیشن ارکان کو پینشن اور کمیشن تنخواہ بھی ملتی ہے، رجسٹرار
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاپتہ کمیشن ارکان کو تنخواہ ملتی ہے، جس پر رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز کو عدالت عظمیٰ اور ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ ممبران کو عدالت عالیہ کے مطابق پیکج ملتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمیشن ممبران کو پینشن نہیں ملتی، جس پر رجسٹرار لاپتہ افراد کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ پینشن الگ سے ملتی ہے اور بطور کمیشن تنخواہ الگ۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کمیشن 2011ء میں بنا تھا اب تک اسے ہی توسیع دی جا رہی ہے، جاوید اقبال 2011ء میں ریٹائر ہوئے، اب ان کی عمر 77-78 سال ہوگی۔
آمنہ مسعود نے استدعا کی کہ عاصم منیر سے پوچھ آئیے میرے شوہر کہاں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ تو اس وقت میجر ہوئے ہوں گے، ماضی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار آج والوں کو تو نہیں ٹھہرا سکتے۔
700 پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے، عمل 51 پر ہوا، فیصل صدیقی
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں خصوصی بینیچ بنا چکی ہے جو کمیشن کی کارروائی کو سپروائز کرتا تھا، اس بنیچ نے وہ کیسز دیکھنے تھے جن میں پروڈکشن آرڈر پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمیشن کو جب علم ہی نہیں کہ بندہ کہاں ہے تو پروڈکشن آرڈر کیسے جاری کر سکتا ہے، جس پر وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیے کہ کمیشن ابتدائی انکوائری میں تعین کرتا ہے کہ کیس جبری گمشدگی کا ہے بھی یا نہیں، لاپتہ افراد کمیشن کے احکامات پر حکومت عملدرآمد نہیں کرتی، کمیشن نے 700 پروڈکشن آرڈر جاری کیے عملدرآمد صرف 51 پر ہوا۔