الیکشن کمیشن کی پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پرسماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
کیس کی سماعت پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نے کی جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند اور پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انورعدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن جوڈیشل ادارہ نہیں، عدالت میں اپنے فیصلے کے حق یا مخالف میں آنا توہین عدالت ہے، کل اس کیس میں مشال یوسفزئی پیش ہوئی وہ اس کیس میں وکیل نہیں، انہوں نے ہائیکورٹ کے باہر سخت تلاشی کا بھی شکوہ کیا۔
قاضی انور کا کہنا تھا کہ ضیاء الحق اور مشرف کے مارشل لاء میری فیملی کو کسی نے کچھ نہیں کہا میں نظر بند رہا،قید و بند برادشت کیں، گھر سے روانہ ہوا تو ہائیکورٹ کے قریب 4مرتبہ تلاشی لی گئی، گاڑی کی ڈگی تک کی تلاشی لی گئی، جس پر جسٹس اعجاز خان بولے؛ باہر جو ہوتا ہے اس سے عدالت کا کوئی سروکار نہیں، ہائیکورٹ کے اطراف میں اضافی سیکورٹی پر دائر رٹ پر آئی جی پولیس کو طلب کیا ہے۔
قاضی انور کا کہنا تھا کہ کیا الیکشن کمیشن ہائی کورٹ آرڈر کے خلاف عدالت جاسکتا ہے، 26 جنوری کو عدالت کے آرڈر پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا ہے، ابھی تک الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری نہیں کیا ہے، 9 جنوری میں بہت کم دن رہ گئے ہیں۔
قاضی انور کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے، الیکشن کمیشن بتائے انہوں نے کیا کیا ہے، پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کو الیکشن سے باہر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، الیکشن کمیشن کو 26 دسمبر کے آرڈر سے کیا مشکل ہے۔
مزید پڑھیں
قاضی انور نے عدالت سے استدعا کی کہ یہ کیس 9 تاریخ کو پشاور ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ سننے، جب الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ شائع نہیں کیا تو انہیں مسئلہ کیا ہے، ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں۔
قاضی انور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے، خواتین کی مخصوص نشستوں اور اقلیتی نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ریلیف ملا،
لاہور ہائی کورٹ میں بھی اسی نوعیت کا کیس تھا، انہوں نے بھی یہی کہا کہ اس میں پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ اس کیس کو 9 جنوری کو دیکھیں گے، سنا ہے کہ الیکشن کمیشن لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے مطمئن ہے، الیکشن کمیشن کو کوئی مشکل پیدا ہوئی ہوتی تو بتائیں، لاہور ہائیکورٹ میں انہوں نے کہا کہ 9 جنوری کے بعد سماعت کی تاریخ دیں۔
جسٹس اعجاز خان بولے؛ اس کا مطلب ہے کہ حکم امتناعی سے الیکشن کمیشن کو کوئی مشکل پیدا نہیں ہوئی، عدالت نے الیکشن کمیشن کو وہاں پر 9 کے بعد تاریخ دے دی ہے، لاہور ہائیکورٹ میں کہا گیا کہ 9 کو کیس فکس ہے اس لیے سماعت ابھی نہیں کرتے۔
پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کرنے والے درخواست گزار جہانگیر کے وکیل نوید اختر نے بھی عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ درخواست گزار پی ٹی آئی چارسدہ کا نائب صدر تھا، لیکن عدالت میں درخواست جمع کرتے ہی ان کی ممبر شپ ختم کردی گئی، پی ٹی آئی نے رولز اور پارٹی آئین کیمطابق انٹرا پارٹی الیکشن منعقد نہیں کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر مہمند کا موقف تھا کہ 13 جنوری سے پہلے کمیشن نے فیصلہ کرنا ہے، ہائیکورٹ کے آرڈر کی وجہ سے معاملات رک گئے ہیں، دیگر پارٹیوں کو بھی اس آرڈر سے فائدہ ہوگا۔
پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس سیاسی جماعت سے انتخابی نشان لینے کا اختیار نہیں، میرا کیس تو یہی ہے کہ مجھے اپنا انتخابی نشان دیاجائے، الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کے کنڈکٹ پر کیسے سوال کر سکتا ہے، پی ٹی آئی نے 2013 اور 2018 انتخابات بیٹ کے نشان پر لڑے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے خلاف دائر الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پرفریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
گزشتہ سماعت کا احوال
گزشتہ روز سماعت کے دوران پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کی بحالی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا تھا۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر مہمند نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو سنے بغیر ایکس پارٹی کر کے حکم امتناع جاری کیا۔
سکندر مہمند کا کہنا تھا کہ عدالت نے تحریری فیصلے میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل کا ذکر کیا جبکہ وہ انہیں تو فریق بنایا ہی نہیں گیا تھا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ الیکشن کمیشن کو سنے بغیر کیسے حکم امتناع جاری کیا جا سکتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کا 26 دسمبر کا فیصلہ
پشاور ہائیکورٹ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے الیکشن کمشین کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کرلیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی جانب سے بلے کے نشان کو واپس لینے کے فیصلے کو آئندہ سماعت تک معطل کر دیا تھا۔