سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو تمام معاملات پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔
ڈان نیوز کو انٹرویو میں سابق چیف جسٹس کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ انہوں نے بیرسٹر اکرم شیخ کی جانب سے تین نکات پر فیصلہ کی استدعا پر کارروائی کے بعد عمران خان کو انہی تین نکات پر صادق و امین قرار دیا تھا۔
’ اسے سیاسی رنگ دیا گیا۔ انہیں (عمران خان) کو مکمل طور پر صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔ عمران خان کیخلاف 3 نکات پر میرا فیصلہ آج بھی موجود ہے۔ انہیں 3 نکا ت پر صادق اور امین قرار دیا تھا۔‘
اپنے فیصلوں پر تنقید کے حوالے سے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انسان ہونے کے ناطے ان سے بھی کچھ غلط فیصلے ہوئے ہوں گے۔
’میں بھی انسان ہوں، مجھ سے بھی کچھ غلط فیصلے ہوئے ہوں گے، وہ فیصلے جن پر مجھے ندامت ہے یا جو مجھ سے غلط ہوئے، وہ معاملات جب عدالت میں آئیں گے تب دیکھیں گے لیکن ایک عدالت اللہ کی بھی ہے۔‘
گفتگو کے دوران جب سابق چیف جسٹس سے دریافت کیا گیا کہ پانامہ کیس میں ان پر نوازشریف کو نااہل کروانے کے لیے اس وقت جنرل فیض حمید نے دباؤ ڈالا تھا تو ان کا جواب تھا: فیض حمید کون ہے جو مجھ پر دباؤ ڈالتا؟
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ابھی سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ ) قمر جاوید باجوہ سے اس بارے میں بات کریں گے۔ ’یہ کہتے ہیں کہ میں عمران خان کے لیے عدلیہ میں لابنگ کر رہا ہوں، میں کیوں ان کے لیے لابنگ کروں گا، مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ وہ اب کسی کو انٹرویو نہیں دیں گے بلکہ 1997 سے چیف جسٹس کے عہدے تک کی ساری روداد قلمبند کریں گے۔ انہوں نے اپنی اس مجوزہ کتاب کی بعد از مرگ اشاعت کا عندیہ بھی دیا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بتایا کہ دو روز سے ہیکنگ کا شکار ان کا واٹس ایپ اکاؤںٹ ابھی تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے اپنے موبائل ڈیٹا کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال ہونے سے متعلق خدشے کا بھی اظہار کیا۔
تاہم جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ان کا واٹس اپ ہیک کرنے والوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’اس سے قبل بھی مختلف فائلز کو جوڑ کر ایک آڈیو بنائی گئی تھی۔ کسی کی نجی زندگی میں مداخلت چوری کے زمرے میں آتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر آج کل وہ لوگ بات کر رہے ہیں جنہیں قانون کی الف ب کا بھی علم نہیں۔ جو شخص آج عدالتوں پر حملہ آور ہے وہ کبھی عدالتوں کا پسندیدہ رہا ہے۔ صرف ایک مقدمے کے علاوہ اسے ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ہی ملتا رہا ہے۔
ثاقب نثار کے مطابق بطور چیف جسٹس تعیناتی کے بعد نواز شریف نے انہیں ’اپنا چیف‘ کہنا شروع کردیا تھا یہی وجہ تھی کہ پانامہ کیس میں خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔
’نااہلی کیس میں معیاد سے متعلق معاونت کے لیے اوپن نوٹس کیا تھا کہ جو بھی معاونت کرنا چاہے کرے۔ نااہلی کی معیاد کا تقرر آئین اور قانون کی روشنی میں کیا گیا تھا۔‘