اک عملی آپ چرسی سمجھیں میٹرک کا رزلٹ دیکھنے سب سے پہلے قطار میں لگا کھڑا تھا۔ ٹیکنالوجی ابھی آئی نہیں تھی، گزٹ رجسٹر میں رزلٹ دیکھنا ہوتا تھا۔ 5 سے 10 روپے اس کی فیس ہوتی تھی تو یہ عملی بھائی رولا ڈال رہا تھا کہ مجھے بتاؤ کہ میں پاس ہوں یا فیل ہوں۔ ماسٹر جی بھی وہیں رزلٹ دیکھنے اور شاگردوں سے ملنے کے لیے گھوم رہے تھے۔
ماسٹر جی نے عملی کو کان سے پکڑا اور قطار سے نکال کر اس سے پوچھا کہ اسکول کا تم نے منہ نہیں دیکھا، امتحان تم نے دیا نہیں اور نتیجہ معلوم کرنے سب سے آگے کھڑے ہو۔ تو عملی نے تاریخی جواب دیا کہ ماسٹر جی کیا پتہ میں نے ہی بورڈ ٹاپ کیا ہو۔ خدانخواستہ اگر آپ سمجھے ہیں کہ یہ لطیفہ پی ٹی آئی پر فِٹ کر رہا ہوں تو آپ ٹھیک سمجھے ہیں۔
13 جنوری کو الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان الاٹ کرنے ہیں۔ اس کے بعد الیکشن کی سمت واضح ہو جائے گی۔ کس پارٹی سے کسے ٹکٹ ملا۔ کون رہ گیا، الیکشن مہم چل پڑے گی۔ پی ٹی آئی ابھی الیکشن کے نشان کے لیے ہی مقدمے بازی میں الجھی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن وقت پر نہیں کروائے۔ جب الیکشن کمیشن کے کہنے پر کروائے تو اپنے آئین کے مطابق نہیں کرائے۔ الیکشن کمیشن نے نشان واپس لیا اور پارٹی الیکشن ماننے سے انکار کر دیا۔
بیرسٹر گوہر خان پی ٹی آئی کے چیئرمین لگے یا بنے ہوئے ہیں۔ ان کا تازہ بیان ہے کہ ہم 90 فیصد سیٹیں جیتیں گے۔ بندہ پوچھے کہ سرکار آپ کے امیدوار کدھر ہیں؟ آپ کی پارٹی کا نشان کیا ہے؟ الیکشن مہم کس نے چلانی ہے؟ ۔ کیسی تھکی ہاری پارٹیوں کا یہ مسئلہ نہیں بنا اور پی ٹی آئی نے یہ مسئلہ بننے دیا۔ پارٹی لیڈر کی الیکشن لڑنے میں دلچسپی ہی نہیں تھی نہ ہے۔ وہ بس رولا ڈالے رکھنا چاہتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہمارا اسپورٹس سپر اسٹار لیڈر جب وزیراعظم بنا تو عدم اعتماد سے ہٹائے جانے کا سامنا اسپورٹس مین سپرٹ سے کرنے میں ناکام رہا۔ وہی لوگ جو 3 سال ساتھ تھے دوڑ گئے۔ جو 3 وزیراعلیٰ بنائے تھے وہ پارٹی ہی چھوڑ گئے۔ اس سب کے ساتھ سائفر والی سازش فٹ کی۔ اس کے بعد اللہ واسطے اپنا کارکن سپوٹر اتنا دوڑایا اتنا تھکایا۔ دے مار جلسے، دھرنے، لانگ مارچ، جلوس نکالے۔ اپنے ساتھ چاہت، عقیدت اور تعلق کا وہ امتحان لیا کہ بس کرا دی۔ اس کے بعد 9 مئی ہوا۔ سیاسی لیڈر گرفتار ہوں تو ایک وی کا نشان بناتے ہیں ۔ اپنے سپوٹروں کی غیرت جگاتے ہیں کہ تمہارے لیے جیل گیا۔ الیکشن کا خرچہ آدھے سے کم رہ جاتا ہے۔
کپتان نے ورکر کو کٹوانے کی ٹھان لی۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری کی۔ اب نتیجہ سامنے ہے کہ مقبولیت ہے، اس کو کیش کرانے والا نہ امیدوار بچا ہے، نہ پارٹی کے پاس الیکشن کا نشان ہے۔ نہ الیکشن لڑنے والی مشینری ہے۔ کپتان کے جس ورکر کو چھیڑ لو وہ کپتانیاں مارنے لگ جاتا ہے۔ مقبولیت کے گرم انڈے جن کو خود بھی ہاتھ لگاتے ڈرتے ہیں بیچنے لگ جاتے ہیں۔ بھئی وہ الیکشن ڈے پرفارمنس کے لیے مکینزم کدھر ہے؟ ووٹر پٹواریوں، جیالوں کی گاڑیوں میں بیٹھ کر آئے گا، مان لیا۔ پولنگ ایجنٹ کدھر ہیں؟ بس مقبولیت ہی کا آسرا ہے۔
پاکستان میں اداروں پر تنقید مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہو سکتی ہے۔ سیاستدان کو تنقید کرنی نہیں آتی اور باتیں کرنے پر پھنس جائے تو پھر اسے کوئی اور کام کر لینا چاہیے۔
پی ٹی آئی نے کوشش کر کے دوست ملکوں میں اپنے لیے حالات خراب کیے۔ اس کی بہت باتیں آ پ کو یاد ہوں گی۔ عمران خان کے ساتھ ایران کے دورے پر جب موجودہ آرمی چیف بطور ڈی جی آئی ایس آئی ساتھ گئے تھے۔ جب سعودی طیارے سے اتارا گیا۔ جب یورپی یونین کے خلاف باتیں جلسے میں کی گئیں۔ جب سائفر کو سازش بنایا گیا۔ ایک لمبی لسٹ ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیکھ لیں، آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، سیاسی ضرورت اور شرارت کے تحت تیل کی قیمت بڑھانی تھی الٹا کم کر دی گئی۔ یہ نظر انداز ہو سکتی ہے بات۔ جب پی ڈی ایم حکومت آئی تو شوکت ترین کا صوبائی وزرائے خزانہ سے کہنا کہ آئی ایم ایف کو صوبائی وزرائے خزانہ سپورٹنگ لیٹر نہ فراہم کریں تاکہ ڈیل نہ ہو۔ آئی ایم ایف ایک طرف سے عالمی مالیاتی اداروں اور سسٹم کی وڈی امی ہے۔ اس کے ساتھ اس قسم کے پنگے کرنے کے بعد وہاں کتنی حمایت بچی ہو گی؟ یہ مشورہ کس کا تھا۔ یہ بات کون بھولے گا۔
پاکستانی ریاست ایک تو وہ ہے جس کو ہم سویر شام مذہبی جوش خروش کے ساتھ دھوتے ہیں۔ ہر چوک چوراہے میں اپنا ساڑ نکالتے ہیں۔ ایسا کرتے ایک حقیقت نظر انداز بھی کرتے ہیں کہ ہمارے کچھ پلس پوائنٹ بھی ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہیں۔ ہمارے خطے میں کئی دہائیوں سے جنگ ہی چلی آئی ہے۔ یہ جنگ وہی جیتا ہے جس کے ساتھ ہم ہوئے ہیں۔ جو بھی اس کو جیت کہے گا وہ ہمارا نام نہ بھی لے تو سب لیں گے۔ ہم 25 کروڑ ہیں، دنیا میں ایک اہم کارنر پلاٹ پر رہتے ہیں۔ 3 ویٹو پاور، 2 اکنامک پاور کے ہمسائے ہیں۔ سارے ہی ہم سے کسی نہ کسی بات پر دکھی رہتے ہیں۔ سب ہی کو ہم سے کام بھی ہے۔ ایسا کوئی بھی ملک ہوتا، اس کا کوئی چیف ہوتا، ایسی سیاسی جماعتیں ہوتیں، اس کا کوئی کپتان ہوتا، جس نے یہ سب کیا ہوتا اس کے ساتھ وہی ہوتا جو ہمارے کپتان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ نہیں یقین تو دیکھ لیں امریکی کپتان (ٹرمپ) کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ان حالات میں پی ٹی آئی نے کیا الیکشن لڑنا ہے۔ البتہ وہ لڑے بغیر الیکشن جیتنے کا تاثر ضرور بنانا چاہتی ہے۔