راولاکوٹ کے رہائشی یاسر انور بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں جانا چاہتے ہیں۔ ویزا پراسیس اور دیگر اخراجات کے لیے انہوں نے بدھ کے روز بینک کے ذریعے 10 لاکھ روپے کی رقم نکلوانا چاہی تو چیک بزرگ کیشیئر اعجاز احمد خان کے حوالے کیا، جس پر بزرگ کیشیئر نے انہیں کیش کا بنڈل بینک سیل کے ساتھ تھاما دیا جس پر 10 لاکھ روپے تحریر تھا۔
یاسر انور نے وہاں بنڈل کھول کر رقم گننا غیر مناسب سمجھا اور رقم لے کر گھر روانہ ہوگئے۔ ادھر بینک کیشیئر اعجاز احمد خان نے جب شام کو کھاتہ کلوز کیا تو انہیں دن بھر کے حساب کتاب میں 40 لاکھ روپے کی کمی کا احساس ہوا۔ انہوں نے بینک مینیجر کو اس حوالے سے اطلاع دی، جس پر بینک مینیجر نے یاسر انور کے دوست وحید سے رابطہ کیا۔
بینک مینیجر نے کہا کہ ’آپ اپنے دوست سے پوچھیں کہ کیا انہوں نے بینک سے وصول کی گئی رقم گنی ہے، شاید اس میں کچھ پیسے زیادہ چلے گئے ہیں‘۔
یاسر انور اُس وقت تک گھر نہیں پہنچے تھے جب انہیں ان کے دوست وحید کی کال موصول ہوئی۔ بہرحال گھر آکر انہوں نے رقم سے بھرا ہوا لفافہ کھولا تو اس میں 5-5 ہزار روپے مالیت کے ایک ہزار نوٹ نکلے۔ جس پر وہ خاصے پریشان ہو گئے۔ انہوں نے فوراً اپنے دوست وحید کو واپس کال کی اور گھر آنے کا کہا۔ ان کے دوست کے آنے پر انہوں نے مشورہ کر کے رقم واپس لوٹانے کا فیصلہ کیا۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غالباً بینک کے عملے نے ہزار کے نوٹ کی جگہ پانچ ہزار کے نوٹ ان کے حوالے کر دیے تھے۔
ان کے بقول پیسے تو میں نے پہلے بھی کمائے ہیں جو خرچ ہو جاتے رہے، اس لیے جو رقم مجھ پر حلال نہیں وہ کیسے رکھ سکتا تھا۔ رقم واپس لوٹانے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ بینک کے کیشیئر دل کے مریض بھی تھے۔ سو، ان کے عمل سے جہاں بینک کیشیئر کے لیے سہولت پیدا ہوئی، وہیں انہیں دلی طور پر خوشی محسوس ہوئی۔
ایمانداری سے بڑھ کر کچھ نہیں
یاسر کے مطابق انسان کو ہر طرح کے خیالات آتے ہیں، لیکن انہوں نے مناسب یہی سمجھا کہ اس رقم کو واپس کر دیا جائے۔
یہ ان کے ایمان کا امتحان تھا، لیکن وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ وہ اس میں پورےاترے۔ وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ رقم واپس کر کے باقی لوگوں کو بھی یہ پیغام دیا جائے کہ ایمانداری سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والے عاصم صادق پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر ہیں۔ سوشل میڈیا پر انہوں نے اس سارے عمل کی ویڈیو بنا کر مقامی کمیونٹی کے پلیٹ فارم سے شیئر کی، جسے بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔
عاصم صادق سے گفتگو کرتے ہوئے بینک کیشئر اعجاز احمد خان نے بتایا کہ وہ اس وقت کو بیان نہیں کر سکتے جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ وہ 10 لاکھ روپے کی بجائے 50 لاکھ روپے بھیج چکے ہیں۔ آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں یہ اُمید نہیں تھی کہ جس شخص کو یہ رقم گئی ہے وہ کبھی واپس لوٹائے گے۔
غلطی تو کسی سے بھی ہو جاتی ہے
تاہم بینک مینیجر قمر عباس کے بقول غلطی تو کسی سے بھی ہو جاتی ہے لیکن انہیں اُمید تھی یہ رقم ایک اچھے آدمی کے پاس گئی ہے تو واپس آجائے گی۔ ان کے مطابق یاسر انور دیانتدار شہری ہیں جس کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے یہ رقم ہمیں لوٹا دی۔
اگر یہ رقم واپس نہ کرتے تو کیا ہوتا؟
بینک مینیجر قمر عباس کے بقول کاغذات میں تو 10 لاکھ کی رقم ہی لکھی گئی تھی اس لیے وہاں سے تو ہم ثابت نہیں کر سکتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نوٹوں کا بنڈل پیکنگ میں یاسر انور کے حوالے کیا گیا اس لیے سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی یہ واضح نہیں تھا کہ کتنی رقم دی گئی۔ ان کے بقول اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں تھا کہ انہیں 10 کی بجائے 50 لاکھ روپے دیے گئے، یہ صرف یاسر انور کیا یمانداری تھی جو انہوں نے خود سے رقم واپس کرنے کا فیصلہ کیا۔
والد نے 5 ہزار انعام دیا
یاسر انور کے مطابق ان کے والد فوج سے ریٹائرڈ ہیں۔ انہیں جب اس سارے عمل کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ خوشی سے رونے لگے اور انہیں اس عمل پر 5 ہزار روپے انعام بھی دیا۔
یاسر کے بقول یہ 5 ہزار ان 40 لاکھ پر کہیں بھاری ہیں۔ ان کے والد نے زندگی کا بڑا حصہ سفید پوشی میں گزارا، لیکن کبھی رزق حلال کے علاوہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔
انور کے بقول انہیں سوشل میڈیا اور مقامی کمیونٹی کے لوگوں سے بے تحاشا پیار ملا ہے اور یہی اب ان کی طاقت بن چکا ہے۔