مجھے سندھ اور سندھی لوگوں سے ایک خاص قسم کا پیار ہے۔ سندھ اور سندھیوں سے خصوصی اُنسیت کی وجہ آگے چل کر بیان کرتا ہوں۔ پہلے یہ بتاتا چلوں مجھے کسی بھی نسل یا قوم سے نفرت محسوس نہیں ہوتی۔ ایک مخصوص دائرے میں زندگی گزارنے والے لوگوں کا خاص قسم کے تعصبات کا اسیر ہوجانا عام سی بات ہے۔
البتہ، اپنی زبان،قوم قبیلے اور دھرتی سے محبت بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہیے مگر دوسرے لوگوں سے نفرت دوسرے سے زیادہ خود کو اذیت میں مبتلا رکھتی ہے۔ رب کا شکر ہے کہ میں ایسی نفرتوں کا غلام نہیں۔
2010 میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ساتھ مجھے ٹرینر کے طور پر کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ وہ کمپنی معروف دانے دار زہر اور کپاس کے لئے کیڑے مار ادویات بناتی ہے۔ ظاہر ہے اس کمپنی کا کاروبار بھی کسانوں کے ساتھ استوار ہے۔
اس کمپنی نے مجھے اچھے خاصے پیسے دیے مگر اصل کمائی پنڈی بھیٹیاں کے ٹاہلی والا سے لے کر روجھان مزاری تک اور پھر احمد پور شرقیہ سے دادو ، مٹیاری کی گوٹھوں اوطاقوں تک جانا او ر لوگوں سے ملنا ملانا تھا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ سرائیکی دوستوں سے زیادہ سرائیکی علاقے تفصیلاً گھوم پھر چُکا ہوں اور کئی سندھیوں سے زیادہ سندھ دیکھ چُکا ہوں۔
اس میں کوئی تفاخر والی بات نہیں مطلب یہ کہ مجھے وہاں کے رہنے والے لوگوں، ان کے رسم و رواج، بول چال ،عادات اور زبان سے آشنائی کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے ماموں اقبال ٹھٹھہ میں زمین داری کرنے کے قصے سنایا کرتے تھے۔ انھیں سندھی زبان سے بھی شد بد تھی۔ وہاں اپنے گزارے ہوئے وقت کے حوالے سے کبھی کبھار بات کیا کرتے تھے۔
ایک دفعہ وہ ہم دونوں بھائیوں کے لیے سندھی ٹوپیاں بھی لائے تھے۔ چھوٹے چھوٹے گول شیشوں سے مرصع اور کڑھی ہوئی یہ ٹوپی میں کبھی کبھار ہی پہنتا تھا۔ جس دن پہنتا مجھ سے زیادہ یہ ٹوپی اہمیت اختیار کر جاتی۔ اکثر لڑکے پوچھتے کہاں سے لی ہے تو میں ظاہر ہے فخریہ طور پر بتاتا کہ میرا ماما یہ میرے لیے سندھ سے لائے ہیں۔ لڑکے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے اور اسے ہتھیانے کے چکروں میں رہتے بالآخر وہ کسی نے اینٹھ ہی لی۔
ڈرامہ سیریل دیواریں پی ٹی وی کراچی سے شروع ہوا تو میں اس کا ریگولر ناظر تھا۔ میں اپنے ننھیالی گاؤں رہتا تھا۔ نانا جی جنہیں سارے گھر والے چاچا جی کہتے تھے۔ لہذا میں بھی چاچا جی ہی کہتا تھا۔ عشا ء کی نماز وہ مسجد میں جا کر پڑھا کرتے تھے۔ جس دن دیواریں کی قسط لگنی ہوتی تھی میں بڑے اہتمام سے چاچا جی کے ساتھ مسجد جاتا۔ ان کے ساتھ وضو کرتا۔ وہ جونہی سُنت نماز کی نیت باندھتے میں ماموں افضل کے گھر “دیواریں” دیکھنے چلا جاتا۔
جب تک نانا جی گھر پہنچتے میں بھی آ جاتا۔ ایک دو بار مامے ناظر شیخ نے مجھے ماموں افضل کے گھر ٹی وی دیکھتے دیکھا تو ماموں اقبال یا شفیق کو بتا دیا۔ اب مجھ پر ایسی کڑی نظر رکھی جاتی جیسے کوئی ریاست باغیوں پر رکھتی ہے۔ ماما ناظر شیخ ہمارے گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی کرتے تھے جیسے آٹا پسوانا ،بل جمع کروانا وغیرہ۔
اچھا مزے کی بات یہ ہے کہ میرے ننھیالی خاندان کے لیے ٹی وی خریدنا بالکل بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ در اصل گھر میں ٹی وی رکھنا نا مناسب خیال کرتے تھے۔ دوسرا وہ سمجھتے تھے کہ ٹی وی آنے سے یہ پڑھائی سے دور ہو جائیں گے۔ دیواریں میرا پسندیدہ ڈرامہ بن گیا۔ نہ صرف اس کے ہیرو ہاشم کی طرح میں ڈائیلاگ بولتا تھا بلکہ میں نے گتا کاٹ کر کُلہاڑی بنائی۔ اُس پر سگریٹ کی خالی ڈبیوں سے لے کر سلور رنگ کا موٹا کاغذ لگا کر اصل کُلہاڑی کی شکل بنانے کی کوشش کی۔
شہتوت کی لکڑی کاٹ کر کُلہاڑی کا دستہ بنایا۔ جب کُلہاڑی بن گئی تو سندھی ٹوپی سر پر اور کندھے پر کُلہاڑی لٹکائے میں گاؤں میں پھرتا۔ خاص طور پر جب اپنے زمینوں پر ڈیرے کی طرف یا گاؤں میں سکول کی گراؤنڈ میں جاتا۔ اپنی طرف سے میں “دیواریں” کا ہیرو ہاشم بنا پھرتا تھا۔
“دیواریں” میں ہیروئین سکینہ سموں تھیں۔ یہ اپنے دور کا بلاک بسٹر ڈرامہ تھا۔ بعد ازاں عبدالقادر جونیجو مرحوم اور دیگر کئی سندھی رائٹرز کے لکھے ڈرامے دیکھے جیسے جونیجو صاحب کے ایک مزاحیہ ڈرامے کا کردار “جانو جرمن” آج بھی یاد ہے۔
جانو جرمن ایک ان پڑھ دیہاتی ہوتا ہے اور اور انگریزی کے حروفَ تہجی زبانی یاد ہیں۔ وہ اپنی حرکتوں سے مزاح تخلیق کرتا ہے۔ گوٹھ کا ہی ایک پڑھا لکھا بندہ شہر یا بیرونِ ملک سے واپس گاؤں آتا ہے تو گاؤں کے کچھ ہوشیار لوگ جانو جرمن کو اس کے مقابلے میں لے آتے ہیں کہ یہ بھی بہت پڑھا لکھا ہے۔ ایک دن دونوں کا انگریزی بولنے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا بندہ انگریزی میں کوئی بات کرتا ہے تو جواباً جانو جرمن پوری اے بے سی فر فر سُنا کر دم لیتا ہے اور فاتحانہ نظروں سے ادھر اُدھر دیکھتا ہے تو لوگ خوشی سے تالیاں بجاتے اور نعرے لگاتے ہیں۔ یقیناً جمع سارے لوگ ، سردار اور جانو جرمن سمجھتا ہے کہ وہ جیت گیا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں جانو جرمن وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
پہلی دفعہ میں سندھ اپنے دوست عابد عباس کاظمی کی شادی میں شرکت کے لئے مدھیجی ،شکار پور گیا۔ یہ قصبہ لاڑکانہ اور شکار پور کے درمیان میں واقع ہے۔ میرے ساتھ میرے دوست احمر سہیل بھی اس یاد گار دورے میں شامل تھے جس کی تفصیل پھر سہی۔ بس ایک بات بتا دوں کہ جب ہم موئن جو دڑو گئے تو وہاں آثارِ قدیمہ اتنی زبردست حالت میں ہیں کہ احمر نے کہا کہ میں نہیں مانتا کہ یہ پانچ ہزار سال پُرانے ہیں۔
موئن جو دڑو ہمارے پاس اتنا شاندار خزانہ ہے کہ پورے پاکستان کو اور خاص طور پر سندھ اور سندھیوں کو اس پر فخر کرنا چاہیے۔ یقیناً سندھیوں کو سندھ ،اس کے کلچر اور زبان پر فخر ہے۔ اپنے آپ سے پیار کریں اور اپنی عزت کریں۔ آپ اپنی عزت نہیں کریں گے تو کوئی دوسرا کیوں کرے گا۔