غزہ میں الجزیرہ کے رپورٹر وائل الدحدوح کون ہیں؟ انہیں عزم و ہمت کا پہاڑ کیوں کہا جارہا ہے؟

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

غزہ میں جاری اسرائیلی فضائی حملوں میں اپنے خاندان کے بیشتر افراد کی ہلاکت کے 2 ماہ بعد الجزیرہ کے غزہ میں بیورو چیف وائل الدحدوح اب اپنے بڑے بیٹے حمزہ دحدوح کو بھی ایک اور اسرائیلی فضائی حملے میں کھو چکے ہیں۔

حمزہ دحدوح، جو خود بھی صحافی تھے، وہ اپنے ساتھی مصطفی ثورایا کے ساتھ خان یونس کے مغربی علاقے میں اس وقت جاں بحق ہوئے جب وہ المواسی کے قریب سفر کررہے تھے۔

الجزیرہ کے مطابق، گاڑی کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب دونوں صحافی بے گھر فلسطینیوں کا انٹرویو کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

واضح رہے کہ الجزیرہ کے وائل الدحدوح خود بھی ایک اسرائیلی حملے میں زخمی ہوچکے ہیں مگر ان تمام تر مشکلات کے باوجود غزہ جنگ کے دوران شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہے جس میں وہ اپنے فرائض سے پیچھے ہٹے ہوں۔

گزشتہ برس اکتوبر میں وائل الدحدوح کی بیوی، بیٹے، بیٹی اور پوتے اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے تاہم اپنے 4 اہل خانہ کی تدفین کے بعد وہ اسی دن فلسطینیوں کی نقل مکانی اور اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کی کہانیاں سنانے کا عزم لیے اپنے کام پر واپس آئے۔ گزشتہ ماہ خود ایک اسرائیلی حملہ میں زخمی ہونے کے بعد بھی انہوں نے فوری طور پر دوبارہ رپورٹنگ شروع کر دی تھی۔

وائل الدحدوح نے نقصان درنقصان کے درد کے باوجود اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ غزہ میں کیا ہورہا ہے دنیا کو دکھانے کے لیے اپنے راستے پر قائم رہیں گے۔ (فائل فوٹو)

تاہم اپنے بڑے بیٹے حمزہ کی موت کے بعد، وائل الدحدوح  قدرے مایوس نظر آئے۔ ’میں آج غزہ کے ان لوگوں میں سے ایک ہوں جو ہر روز اپنے پیاروں کو تلخ الوداع کہہ رہے ہیں، حمزہ میرے لیے سب کچھ تھا، میرا سب سے بڑا بیٹا، وہ میری روح کی جان تھا۔ یہ جدائی اور زیاں کے آنسو ہیں، انسانیت کے آنسو ہیں‘۔

انہوں نے نقصان در نقصان کے درد کے باوجود اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ غزہ میں کیا ہورہا ہے دنیا کو دکھانے کے لیے اپنے راستے پر قائم رہیں گے۔

حمزہ کے انسٹاگرام پر 10 لاکھ فولوورز تھے اور اپنی موت سے ایک روز قبل ان کی آخری پوسٹ ان کے اپنے صحافی والد کے لیے تھی۔ پریس ہیلمٹ پہنے ہوئے اپنے والد کی ایک تصویر کے ساتھ انہوں نے لکھا: آپ ثابت قدم اور صبر کرنے والے ہیں، والد! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ وہ آپ کو صبر کرنے کا اچھا صلہ ملے گا۔

 

 

View this post on Instagram

 

A post shared by Hamza Wael (@hamza_w_dahdooh)

 

گزشتہ ہفتے، حمزہ نے اپنے مقتول چھوٹے بھائی محمود کی جانب سے ایک ویڈیو پوسٹ کی، جو اکتوبر میں مارا گیا تھا، اس ویڈیو کی وائس اوور کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے: والد! اداس نہ ہوں، مضبوط بنیں اور انہیں بے نقاب کریں‘۔

اسرائیلی میزائل حملے میں حمزہ کے قتل کی خبر پھیلتے ہی ان کی بیوی، اس کے زندہ بچ جانے والے بہن بھائیوں کی طرح، اسے دفن کرنے سے پہلے ایک آخری دیدار کے لیے قبرستان پہنچیں، جہاں وائل الدحدوح اپنے بیٹے کی میت کے سرہانے کھڑے تھے، اس وقت بھی وہ اس اچانک ہونے والے نقصان کو سمجھنے کی کوشش کرتے اپنے خاندان کے باقی افراد کو تسلی دے رہے تھے۔

’خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ وہ آپ کو صبر کرنے کا اچھا صلہ دے گا۔‘ مقتول حمزہ الدحدوح کا اپنے والد کے لیے انسٹا گرام پر آخری پیغام۔ (فائل فوٹو)

وائل الدحدوح کون ہیں؟

مڈل ایسٹ مانیٹر کے مطابق، وائل الدحدوح نے اپنا بچپن مشرقی غزہ میں گزارا، جہاں اسرائیلی قابض افواج نے انہیں پہلے انتفاضہ کے دوران گرفتار کرلیا تھا۔ ان کی جیل کی سزا نے انہیں بدل کر رکھ دیا، کئی فلسطینی اداروں کے ساتھ کام کرنے کے بعد وائل الدحدوح نے 2004 میں الجزیرہ میں شمولیت اختیار کی۔

وائل الدحدوح کی ہمت اور طاقت نے انہیں غزہ میں الجزیرہ ٹی وی عربک کے بیورو چیف سے کہیں زیادہ مرتبہ و مقام کا مالک بنادیا ہے، وہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی چینل کی کوریج کا چہرہ اور غزہ کے لوگوں کی برداشت کی جیتی جاگتی علامت بن چکے ہیں۔

گزشتہ برس اکتوبر کے آخر میں جب انہوں نے اپنی بیوی، بیٹا، بیٹی اور پوتے کو اسرائیلی فضائی حملے میں کھویا، تو دنیا نے حیرانی سے دیکھا کہ وہ بھاگ کراسپتال پہنچے جہاں ان کے 4 پیاروں کی لاشیں منتقل کی گئی تھیں، اپنے بچوں، پوتے پوتیوں اور جیون ساتھی کو جذباتی الوداع کہنے کے بعد وہ اپنے صحافیانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے پہلے سے زیادہ پُرعزم نظر آئے۔

وائل الدحدوح کی ہمت اور طاقت نے انہیں غزہ میں الجزیرہ ٹی وی عربک کے بیورو چیف سے کہیں زیادہ مرتبہ و مقام کا مالک بنادیا ہے۔ (فائل فوٹو)

پھر دسمبر کے وسط میں، وائل الدحدوح ایک حملے میں بُری طرح زخمی ہوگئے تھے جس میں ان کا ساتھی ثمرابوداقہ جاں بحق ہوگیا تھا، لیکن وہ دوبارہ فعال ہوئے اورکچھ ہی دیربعد نیوز رپورٹنگ شروع کردی۔

دریں اثنا، صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی یعنی سی پی جے کے مطابق، 7 جنوری 2024 تک، سی پی جے کی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم 79 صحافی اور میڈیا کارکنان 7 اکتوبر کو شروع ہونیوالی جنگ کے بعد مارے جانے والے 23 ہزار سے زائد افراد میں شامل تھے۔ ان اموات میں 22 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ اور مغربی کنارے میں جبکہ 1200 اسرائیلی بھی شامل ہیں۔

تاہم، عرب پورٹلز صحافیوں کی ہلاکت کے ضمن میں 100 سے زائد تعداد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دی نیو عرب کے مطابق، 7 اکتوبر سے ایک دن میں اوسطاً ایک سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، قبل ازیں رائٹرز کی تحقیقات میں الزام لگایا گیا تھا کہ اسرائیلی ٹینک فائر نے لبنان میں واضح طور پر شناخت شدہ صحافیوں کو نشانہ بنایا، جس میں رائٹرسے وابستہ صحافی عصام عبداللہ جاں بحق اور 6 دیگر صحافی زخمی ہوئے تھے۔

دریں اثنا، انسانی حقوق کے ایک گروپ کی طرف سے شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ اسرائیلی افواج مغربی کنارے میں کسی خطرے کا باعث نظر نہ آنے والے 2 فلسطینی شہریوں کو قتل کررہے ہیں، جس کے بعد آن لائن غم و غصے نے ظاہری طور پر اسرائیلی حکام کو اس معاملے میں ملٹری پولیس کی تحقیقات شروع کرنے پر اکسایا۔

اسرائیلی فوجیوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے ’غلطی سے‘ غزہ میں 3 اسرائیلی یرغمالیوں کو، مبینہ طور پر خطرہ سمجھتے ہوئے قتل کردیا ہے، اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے یہ تینوں ان 240 اسرائیلیوں میں شامل تھے جنہیں حماس نے غزہ میں یرغمال بنایا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp