شیخ حسینہ واجد پانچویں مدت کے لیے بنگلہ دیش کی وزیراعظم منتخب ہوگئی ہیں۔
بنگلہ دیش کے الیکشن کمیشن کے مطابق شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ نے انتخابات میں 300 میں سے 222 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ آزاد امیدواروں نے 63 اور اپوزیشن جماعت جاتیا پارٹی نے صرف 11 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، عوامی لیگ اور آزاد امیدواروں کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے بعد بنگلہ دیش کی پارلیمان میں اپوزیشن بنانے کا مسئلہ درپیش ہوگا۔ تاہم جیتنے والے آزاد امیدوار وہ سیاسی شخصیات ہیں جنہیں عوامی لیگ نے ٹکٹ دینے سے انکار کیا تھا مگر ان سے کہا تھا کہ وہ ’ڈمی امیدواران‘ کے طور پر الیکشن لڑیں تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ بنگلہ دیش میں صاف اور شفاف انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے گزشتہ روز میڈیا کو پہلے 28 فیصد اور پھر ایک گھنٹے بعد 40 فیصد الیکشن ٹرن آؤٹ کا بتایا۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (پی این پی) نے 28 فیصد ٹرن آؤٹ کو ’بہت زیادہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے دن پولنگ اسٹیشن خالی رہے، بی این پی انتخابات میں کسی غیر جانبدار ادارے کے تحت رائے شماری کروانا چاہتی تھی اور اتوار کے روز محض رسمی انتخابات منعقد کرائے گئے ہیں۔
واضح رہے بی این پی نے انتخابات کے بائیکاٹ اور 2 روزہ ہڑتال کا اعلان کیا تھا، شیخ حسینہ واجد نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعت کو دہشتگرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا ’ہم ملک میں جمہوریت کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں‘۔
شیخ حسینہ واجد کون ہیں؟
شیخ حسینہ واجد 28 ستمبر 1947 کو مشرقی پاکستان کے شہر ٹنگی پارہ میں پیدا ہوئیں، وہ 60ء کی دہائی میں ہی سیاست میں متحرک ہوچکی تھیں، ان دنوں وہ یونیورسٹی آف ڈھاکہ میں زیر تعلیم تھیں۔ بعد ازاں، جب ان کے والد کو حکومت پاکستان نے گرفتار کیا تو وہ اپنے والد کی سیاسی جدوجہد میں ان کا سہارا بنیں۔
15 اگست 1975 کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمٰن، ان کی اہلیہ اور 3 بھائیوں کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا۔ شیخ حسینہ واجد ان دنوں بیرون ملک زیر تعلیم تھیں، انہوں نے 6 سال جلاوطنی میں گزارے، بعدازاں عوامی لیگ کی رہنما کے طور پر ان کا انتخاب کیا گیا۔ یہ وہی جماعت تھی جس کی بنیاد ان کے والد نے رکھی تھی۔
شیخ حسینہ واجد 1981 میں وطن واپس لوٹیں اور ملک میں جمہوریت کی آواز بنیں۔ انہیں متعدد بار گھر پر نظربند کیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ الیکشن جیت کر اپوزیشن لیڈر بنیں۔ بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے فوج کی جانب سے تشدد کی مخالفت کی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔
1990 میں بنگلہ دیش کے آخری مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل حسین محمد ارشاد نے شیخ حسینہ واجد کے الٹی میٹم کے بعد استعفیٰ دیدیا تھا۔ 1991 میں بنگلہ دیش میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے جن میں شیخ حسینہ واجد واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہیں اور اقتدار بنگلہ دیشن نیشنلسٹ پارٹی کو ملا اور ان کی سیاسی حریف خالدہ ضیا وزیراعظم بن گئیں۔
مزید پڑھیں
شیخ حسینہ واجد، ان کی جماعت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کردیا۔ اپوزیشن کے ان اقدامات کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور خالدہ ضیا کو آخر کار اپوزیشن کے مطالبات کے سامنے سر خم تسلیم کرنا پڑا اور انہیں اقتدار غیر سیاسی نگران حکومت کے حوالے کرنا پڑا۔ 1996 کے عام انتخابات میں شیخ حسینہ پہلی بار ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔
شیخ حسینہ کے دور حکومت میں بنگلہ دیش کی معیشت بہتر تو ہوئی مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہا۔ بی این پی نے حکومت کے خلاف ریلیاں نکالیں، ہڑتالیں کیں جو بعض اوقات پرتشدد واقعات کا باعث بنیں۔ انہوں نے اپوزیشن نے پارلیمانی اجلاسوں کا بھی بائیکاٹ کیا مگر اس کے باوجود حسینہ واجد وزارت عظمیٰ پر براجمان رہیں اور 2001 میں وہ ملک کی پہلی وزیراعظم بنیں جنہوں نے اپنی 5 سالہ آئینی مدت کامیابی سے مکمل کی۔
خالدہ ضیا کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد حسینہ واجد اور ان کی سیاسی پارٹی عوامی لیگ کو کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ 2004 میں ایک سیاسی ریلی کے دوران وہ گرنیڈ حملے میں زخمی ہوئیں۔ 2007 میں فوج کی حمایت یافتہ حکومت نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور پارلیمانی انتخابات ملتوی کیے اور شیخ حسینہ واجد کو بھتہ خوری جبکہ خالدہ ضیا کو کرپشن کے الزامات پر گرفتار کرلیا۔ دونوں خواتین رہنماؤں کو 2008 میں رہا کیا گیا۔ایک سال بعد جب ایمرجنسی ختم ہوئی اور ملک میں عام انتخابات ہوئے تو حسینہ واجد دوسری مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ حسینہ واجد تب سے اب تک مسلسل وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھال رہی ہیں۔
2017 میں، میانمر سے جان بچا کر بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے پر انہیں بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا۔ ان تمام برسوں کے دوران انہیں ریاستی طاقت استعمال کرتے ہوئے اپوزیشن کو دبانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کے دور حکومت میں کئی اپوزیشن رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمے چلائے گئے جبکہ جماعت اسلامی کے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی گئی۔
خالدہ ضیا اور ان کی جماعت نے 2014 کے انتخابات سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل بھی بی این پی نے یہی الزامات عائد کیے تھے لیکن الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ ان انتخابات میں بی این پی چند نشستیں ہی حاصل کر سکی تھی۔ خالدہ ضیا کو الیکشن سے قبل کرپشن کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ خالدہ ضیا اب بھی جیل میں ہیں۔
شیخ حسینہ واجد 1981 سے بنگلہ دیش عوامی لیگ کی قیادت کر رہی ہیں، وہ اب پانچویں بار ملک کی وزیراعظم بن چکی ہیں۔ حسینہ واجد کا شمار دنیا کی طاقت ور ترین خواتین میں ہوتا ہے، فوربس کی 2017 کی طاقت ور ترین خواتین کی فہرست میں ان کا 30واں نمبر تھا۔