سپریم کورٹ: لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت 15 جنوری تک ملتوی

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں لیول پلیئنگ فیلڈ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور وکیل لطیف کھوسہ کے مابین دلچسپ مکالمپ کے بعد کیس کی مزید سماعت  15 جنوی تک ملتوی کردی گئی۔

سپریم کورٹ میں انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم فراہمی پر پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔ عدالت نے سماعت کے بعد کیس کی آئندہ سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی وکلا ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ، ایڈووکیٹ شعیب شاہین اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب بھی روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہم نے پنجاب سے رپورٹ مانگی تھی، ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ رپورٹ جمع کروا دی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک رپورٹ الیکشن کمیشن اور دوسری چیف سیکریٹری پنجاب نے جمع کرائی ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کیا کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے خط پر آپ کو نوٹس جاری کیا تھا۔

پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کی جماعت کی جانب سے 1195 کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں؟ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے پوچھا کہ کیا چیف سیکریٹری پنجاب کا جواب آپ نے دیکھا ہے، ہمیں بتائیں رپورٹ میں کیا غلط ہے؟ رپورٹ پر اعتراضات ہیں تو تحریری طور پر جمع کروائیں۔ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ جس وجہ سے رپورٹ مانگی گئی تھی اس کا جواب نہیں دیا گیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن رپورٹ کے مطابق پی ٹی آٸی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کی شرح 76.18 فیصد ہے، آپ یہ بھی کہہ رہے کہ ٹربیونل نے آپ کے امیدواروں کی اپیلیں بھی منظور کی ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ پھر آپ چاہتے کیا ہیں؟ کیا آپ کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہونے چاہیئں، یہ کورٹ آف لا ہے۔ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق جو نہیں کر رہا وہ عدالت کو بتاٸیں، یا آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں؟ یا پھر وجوہات بتائیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ عدالت سے کوٸی حکم چاہتے ہیں تو وہ بتاٸیں جو ہم کردیں، آپ اپنے دکھڑے نہ روئیں بلکہ بتائیں کہ کیا ریلیف چاہیے، آپ کس جماعت کے امیدوار ہیں؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی چھوڑے کافی دیر ہوگئی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے بار بار بولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں سوال ہی نہیں کرنے دے رہے، ہمیں پوچھنے سے روک دیتے ہیں، اس طرح کریں عدالتی حکم نامہ بھی آپ خود ہی لکھوا لیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی اور جماعت کے رہنما پر ایم پی او نہیں لگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) سمیت سب جماعتیں آپ کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے بلے کے نشان سے متعلق درخواست 10 جنوری کو سماعت کے لیے مقرر کردی

لطیف کھوسہ نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت ہمارے خلاف تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو پی ڈی ایم کی حکومت نہیں ہے، لطیف کھوسہ نے کہا ہماری بلے کے نشان کی واپسی کے لیے درخواست مقرر ہی نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کی بلے کے نشان سے متعلق درخواست 10 جنوری بروز بدھ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی یقین دہائی کرادی۔

چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہیئں؟ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ 100 فیصد الیکشن چاہیئں، باقی کوئی سیاسی جماعت عوام میں جانا ہی نہیں چاہتی۔ عدالت نے سماعت کے بعد کیس کی آئندہ سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر توہین عدالت کے کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے تحریک انصاف کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ غلط بیانی پر تحریک انصاف کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی جائے۔

مقدمے کا پسِ منظر

26 دسمبر کو آئندہ انتخابات کے حوالے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پر عملدرآمد نہ ہونے پر پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ عدالتی احکامات کے باوجود پی ٹی آئی امیدواروں کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے سے روکا گیا، صوبائی الیکشن کمشنر کے متعدد خطوط لکھے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

درخواست میں پی ٹی آئی نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ 22 دسمبر کے احکامات پر عملدرآمد یقینی بنائے، پی ٹی آئی امیدواروں اور رہنماؤں کو گرفتاریوں اور حراساں کرنے سے روکا جائے۔ عدالتی حکم عدولی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، پی ٹی آئی امیدواروں کو ریلیوں اور جلسوں کی اجازت دی جائے۔

پی ٹی آئی نے توہین عدالت کی درخواست پر فوری سماعت کرنے کی بھی استدعا کی، درخواست میں چاروں چیف سیکریٹریز، آئی جیز کے علاوہ سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

قبل ازیں 22 دسمبر کو سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق درخواست کو نمٹاتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام شکایات پر فوری ایکشن لے کر انہیں حل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp