جسٹس مظاہر نقوی کیس: سپریم کورٹ شکایت گزاروں کی بدنیتی کا تعین کیسے کر سکتی ہے، جسٹس امین الدین

پیر 8 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ میں جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ شکایت گزاروں کی بدنیتی کا تعین کیسے کر سکتی ہے، عدالت نے کہا کہ یہ ہمارے لئے بہت مشکل صورتحال ہے لہٰذا احتیاط سے چلنا ہوگا۔ عدالت نے جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کی درخواست کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھی ہے۔

آج سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے بینچ پر اعتراض واپس لے لیا۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آپ نے تو بینچ پر اعتراض کیا تھا۔ وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بینچ کے کسی رکن پر نہیں بلکہ بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار کے قانون پر عمل نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا۔

جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ کیا کسی اور وکیل کو بینچ پر اعتراض ہے، جس پر وکیل لطیف کھوسہ/ انور منصور خان نے کہا کہ وہ مخدوم علی خان کی رائے سے متفق ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج کیس کے میرٹس پر دلائل دیں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر بینچ کی تشکیل درست نہیں تو کیا یہ کیس سن سکتے ہیں، اگر آپ بینچ کی تشکیل کو درست سمجھتے ہیں تو کیس کی کارروائی آگے بڑھاتے ہیں۔

’درخواست گزار کی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل سے متعلق ہے

وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ مفروضوں کی بنیاد پر جسٹس مظاہر نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکاز نوٹس کیا۔ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ طے کرنا کس کا اختیار ہے کہ شوکاز نوٹس حقائق پر مبنی ہے یا مفروضوں پر۔

وکیل مخدوم علی خان بولے کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل نے طے کرنا ہے مگر میرے خلاف شکایات بدنیتی پر مبنی ہیں۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ شکایت گزاروں کی بدنیتی کا تعین کیسے کر سکتی ہے، جس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ جسٹس مظاہر نقوی کا کیس جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنسز سے مختلف ہے، فتخار چوہدری اور قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز صدر مملکت نے بھیجے تھے، موجودہ کیس میں شکایت گزاروں کا جسٹس مظاہر کے خلاف ریفرنس بھیجنے کا کوئی قانونی حق نہیں بنتا، میرے خلاف ایک شکایت گزار عدالت میں آئینی درخواست بھی لایا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ شکایت گزار کی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر ہے۔ جسٹس جمال منوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ نے بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل پر اعتراض کیا۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ان کے ممبران پر اعتراض کیا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے تو اس میں فریق کس کس کو بنایا گیا ہے۔ مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ کیس میں وفاق اور صدر پاکستان بار سمیت دیگر کو فریق بنایا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کے 2 ممبران کچھ عرصہ پہلے رولز آف انکوائری کو غیر آئینی کہہ کر ترمیم کا مطالبہ کر چکے ہیں، آئین کے آرٹیکل 209 کا مقصد ججز کے خلاف کارروائی نہیں بلکہ جج کو تحفظ دینا ہے۔

عدالت نے وکیل میاں داؤد کو بولنے سے روک دیا

دوران سماعت شکایت کنندہ میاں داؤد لاہور رجسٹری سے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے تو جسٹس جمال مندوخیل نے میاں داؤد کو بولنے سے روک دیا اور کہا، ’آپ کیوں کھڑے ہیں؟ آپ تشریف رکھیں۔‘

جسٹس امین الدین بھی بولے، ’آپ بیٹھ جائیں، اگر عدالت نے آپکو سننا ہوگا تو بلالیں گے‘ اور پھر وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کہ آپ نے کیس میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف شکایت کنندگان کو فریق کیوں نہیں بنایا۔

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ان کا اعتراض سپریم جوڈیشل کونسل میں چلنے والی کارروائی کے طریقہ کار پر ہے، جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل نے غیر قانونی طریقے سے کارروائی کا آغاز کیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے، ’یعنی آپ کی آئینی درخواست صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی تک محدود ہے۔‘ مخدوم علی خان بولے، ’بالکل، عدالت دیکھے کہ کیسے میرے خلاف کارروائی کو چلایا جا رہا ہے۔‘

’اگر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی درست نہیں تو یہی بینچ معاملہ دیکھے گا

جسٹس جمال خان مندوخیل نے وکیل سے کہا، ’دیکھیں یہ ہمارے لئے بہت مشکل صورتحال ہے، احتیاط سے چلنا ہوگا۔‘ مخدوم علی خان نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا، ’واقعی ہمارے لئے مشکل صورتحال ہے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے جج کے کنڈکٹ کا معاملہ ہے۔‘

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ آپ کی تمام استدعائیں کونسل میں دائر کی گئی شکایات کے بارے میں ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ جوڈیشل کونسل کے 2 ممبران ایک خط کے ذریعے جوڈیشل کونسل رولز پر رائے دے چکے ہیں، شوکت عزیز صدیقی کیس میں سپریم کورٹ کونسل رولز کو آئینی قرار دیا جا چکا ہے، پہلے مرحلے میں ہمارا اعتراض جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ہے، اگر عدالت یہ کہہ دے کہ کونسل نے شوکاز نوٹس درست جاری کیا تو معاملہ کونسل میں جائے گا، اگر عدالت نے یہ طے کیا کہ کونسل کی کارروائی درست نہیں تھی تو سپریم کورٹ کا یہ بینچ معاملے کا جائزہ لے گا۔

’شکایات کنندگان کو فریق بنانا ہوگا‘

وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے شوکاز نوٹسز کو بھی چیلنج کیا ہے، جس پر جسٹس امین الدین نے کہا کہ شوکاز نوٹسز شکایات کی بنیاد پر جاری کیے گئے تو شکایت کنندگان کو فریق بنانا ہو گا۔ مخدوم علی خان بولے، ’میں آرٹیکل 184 تھری کی درخواست سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف لایا ہوں شکایت گزاروں کے خلاف نہیں، اگر میں شکایت گزاروں کو فریق بناؤں گا تو وہ خلاف فیصلہ نہ ہونے پر آرٹیکل 184 تھری کےتحت عدالت آ جائیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا، ’میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم کرنے کی استدعا کر رہا ہوں نہ کہ شکایات ختم کرنے کی، جج کے خلاف شکایت معلومات کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔‘

’جس کا دل چاہتا ہے ججز کیخلاف شکایات لے آتا ہے‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدلیہ یا ججز کی تضحیک کی غرض سے بھیجی گئی شکایات پر کونسل شکایت کنندہ کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کونسل کیا سزا دے سکتی ہے، جس پر مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ کونسل توہین عدالت کے قانون کے تحت کارروائی کر سکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آج کل عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز باتیں کی جا رہی ہیں، ایک جج کی بیٹی سے منسوب کرکے ایک بات بریکنگ نیوز کے طور پر پھیلائی گئی، جس کا دل چاہتا ہے اٹھ کر ججز کے خلاف شکایات لے آتا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں، ججز تو جواب بھی نہیں دے سکتے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے انور منصور سے استفسار کیا کہ کونسل اور جج کے علاوہ کوئی تیسرا فریق کیسے آسکتا ہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر مخدوم علی خان کے مطابق کونسل، صدر اور وفاق کے علاوہ کوئی فریق نہیں بن سکتا۔

وکیل انور منصور کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے ریفرنس کا حوالہ

اس موقع پر گجرانوالہ بار کے وکیل انور منصور نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماضی کے ریفرنس کا حوالہ دیا تو اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وہی صورت حال ہے تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کی درخواست میں تو جج کو بھی فریق نہیں بنایا گیا، جس پر انور منصور نے کہا کہ عدلیہ کی خودمختاری کے لیے کوئی بھی درخواست لے کر آسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم مان لیتے ہیں کہ آپ عدلیہ کی آزادی کے لیے آئے ہوں گے مگر درخواست میں شوکاز کیسے چیلنج کرسکتے ہیں۔ یہاں گجرانوالہ بار کے وکیل انور منصور نے دلائل مکمل کر لیے۔

شکایت کنندہ میاں داؤد کے دلائل شروع

وکیل میاں داؤد نے اپنے دلائل شروع کیے تو جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’آپ کون ہوتے ہیں عدالت آ کر سپریم جوڈیشل کونسل کے کسی رکن پر اعتراض اٹھانے والے؟

جس پر وکیل میاں داؤد نے کہا کہ مجھے آئین اور قانون اجازت دیتا ہے کہ درخواست دائر کر سکوں، جسٹس اعجازالاحسن نے بھی غلام محمود ڈوگر کیس کا فیصلہ دیا تھا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے سپریم جوڈیشل کونسل میں جج پر اعتراض کیا؟ تو وکیل میاد داؤد نے کہا کہ اعتراض کیا تھا لیکن جج نے اعتراض مسترد کرتے ہوئے کارروائی میں شامل رہنے کا فیصلہ کیا۔

آپ کا کوئی حق نہیں کسی جج پر اعتراض اٹھائیں

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب کونسل نے فیصلہ کر دیا تو بات ختم، آپ کا کوئی حق نہیں کہ کسی جج پر اعتراض اٹھائیں، سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے کہ آپ کو بلائے یا نہیں، آپ اللہ پر اور ادارے پر بھروسہ رکھیں۔ اس کے بعد جسٹس مظاہر نقوی کی آئینی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp