شہدائے بلوچستان کے اہلِ خانہ بھی برسوں سے اپنوں کے بچھڑنے کے بعد انصاف کے منتظر ہیں، عدالت ان کے لیے بھی کمیشن بنائے اور دہشتگردی میں ملوث لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
ان خیالات کا اظہار آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل نے کیا۔ وہ اسلام آباد میں بلوچستان شہدا فورم کے جاری دھرنے میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عبداللہ گل نے کہا کہ لاپتہ افراد تو پھر گھر واپس آجاتے ہیں مگر بلوچستان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوجانے والے کبھی واپس نہیں آتے۔ ان کے اہلِ خانہ انصاف کے لیے کہاں جائیں؟
’عدالت ایک انکوائری کمیشن بنائے جس میں پوچھا جائے کہ دہشتگرد تنظیموں کا ساتھ دینے والے کون لوگ ہیں؟ ان کے ساتھ جڑے لوگوں کو مغربی میڈیا سے کیوں پزیرائی مل رہی ہے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حوالے سے 65 فیصد ٹرینڈز برطانیہ سے چلے۔
انہوں نے سوال کیا کہ بلوچستان سے مارچ کرنے والے افراد اور ان کی رہنما ماہ رنگ بلوچ بتائیں کہ ان کے پاس وسائل کہاں سے آئے؟ وہ کہتی ہیں بلوچستان میں لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ہیں مگر ان کے گوادر سے اسلام آباد تک مارچ اور قیام کے وسائل کہاں سے آئے۔ کیا یہ غریب لوگوں کے لیے استعمال نہیں ہونے چاہیے؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے عبداللہ گل کا کہنا تھا کہ شہدا فورم کے لوگوں کو انصاف ملنا چاہیے۔ ان کے پیاروں نے پاکستان کے لیے قربانی دی۔
’کیا بلوچستان میں پاکستان کا پرچم تھامنا اتنا بڑا جرم ہے کہ لوگوں کو شہید کردیا جائے؟‘
عبداللہ گل کا کہنا تھا کہ ان کے دوست نوبزادہ سراج رئیسانی کو 250 لوگوں کے ساتھ بلوچستان میں شہید کیا گیا مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالت صرف مسنگ پرسنز پر توجہ دیتی ہے، وہ بھی ضروری ہے مگر شہیدوں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ وہ تو مسنگ پرسنز کی طرح واپس بھی نہیں آتے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی دہشتگرد تنظیمیں انڈیا سے مدد حاصل کرتی ہیں اور کئی افراد بھارت جاکر لاپتہ ہوجاتے ہیں۔