سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر نقوی نے استعفیٰ دیدیا

بدھ 10 جنوری 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس مظاہر نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا دیا ہے۔

خط کے ذریعے صدر مملکت کو بھیجے گئے اپنے استعفیٰ میں جسٹس مظاہر نے لکھا، ’میرے لئے لاہور ہائیکورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ کا جج ‘بننا اعزاز کی بات ہے لیکن موجودہ حالات میں مزید کام جاری نہیں رکھ سکتا ۔ قانونی تقاضے پورے کئے جانے کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے اپنے خلاف ریفرنس کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جاری کیے گئے دوسرے شوکاز نوٹس کا تفصیلی جواب جمع کروایا تھا۔ جوڈیشل کونسل میں جمع کروائے گئے جواب میں جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے مؤقف اپنایا تھا کہ ان کے خلاف شکایات بے بنیاد ہیں، کھلی عدالت میں آئینی درخواستیں زیر سماعت ہونے کے بعد جوڈیشل کونسل کی کارروائی بلاجواز ہے۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو جواب جمع کرانے کا آخری موقع دیا تھا۔ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف جوڈیشل کونسل کا آئندہ اجلاس 11 جنوری کو منعقد ہونا تھا مگر جسٹس مظاہر نے اس سے ایک دن پہلے ہی استعفیٰ دیدیا۔

گزشتہ ماہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف اوپن کورٹ میں سماعت ہوئی تھی جس کے دوران کونسل نے جسٹس نقوی کو شوکاز نوٹس کا جواب دینے کے لیے وقت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل چیف جسٹس پاکستان جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنایا تھا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو تفصیلی جواب دینے کے لیے وقت دیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے شکایت کنندگان سے گواہان کی فہرست بھی طلب کی تھی۔

قبل ازیں جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف کارروائی کے معاملے پر جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں کہا گیا کہ شوکت عزیز صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کھلی سماعت کا حق تسلیم کیا، میری درخواست ہے میرے خلاف بھی جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے لیے کھلی سماعت کی جائے۔

جسٹس مظاہر نقوی کون ہیں؟

واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں اپنے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پہلے جج نہیں ہیں جنہوں نے استعفیٰ دیا ہو۔ ان سے پہلے جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس مظہر اقبال سدھو اور جسٹس فرخ عرفان نے سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع ہونے یا ریفرنس دائر ہونے پر استعفٰے دے دیے تھے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کون ہیں؟

جسٹس نقوی 16 مارچ 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج بنے۔ ان کا تعلق گوجرانوالہ شہر سے ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کیا۔ وہ 1988 سے وکالت کے شعبے سے منسلک رہے ہیں اور 2001 میں سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
انہوں نے اپنے وکالت کے کیریئر میں ایک ہزار سے زائد مقدمات میں وکالت کی ہے اور ان کے کئی مقدمات کے فیصلے رپورٹ بھی ہوئے۔ اس سے قبل 19 فروری 2010 کو وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج بنے اور تقریباً 10 سال ہائی کورٹ جج کے عہدے پر فائز رہے۔
جسٹس نقوی کھیلوں سے خصوصی شغف رکھتے ہیں اور سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔

جسٹس نقوی کے مشہور مقدمات

12 جنوری 2020 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جنرل مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جب خصوصی عدالت جنرل مشرف کو سزائے موت سنا چکی تھی۔
10 اپریل 2018 کو جسٹس نقوی لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ کے حصہ تھے جس نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف مبینہ تقاریر پر پیمرا کو نوٹس جاری کئے تھے۔ اس سماعت کے دوران میاں نواز شریف کے وکیل اے کے ڈوگر اور جسٹس نقوی کے درمیان، جسٹس عاطر محمود کی بینچ میں شمولیت کے معاملے پر تلخ کلامی ہوئی تھی کیونکہ اے کے ڈوگر کا کہنا تھا کہ جسٹس عاطر محمود اس سے قبل تحریک انصاف لائرز فورم کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ اور پھر 16 اپریل کو اس بینچ نے پیمرا کو نواز شریف، مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر نشر نہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔

سنگین غداری کیس

یاد رہے کہ 17 دسمبر 2019 کو پشاور ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں بننے والی خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے پرویز مشرف کو آئین شکنی اور سنگین غداری کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں سزائے موت دینے کا فیصلہ سُنایا تھا۔

تاہم 13 جنوری 2020 کو جسٹس مظاہر علی نقوی (موجودہ سپریم کورٹ جج) کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی فل بینچ نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنانے والی خصوصی عدالت کی ناصرف تشکیل کو غیرقانونی قرار دیا بلکہ اس میں ہونے والی تمام تر کارروائی کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔

فواد چوہدری اور شاہد خاقان عباسی کا کیس

29جون 2018 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سابقہ ایم این اے شیخ وسیم اختر کو قصور میں عدلیہ مخالف ریلی نکالنے پر ایک ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔
جون 2018 میں جسٹس عباد الرحمٰن لودھی پر مشتعمل الیکشن ٹربیونل نے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فواد چوہدری کو آئین کے آرٹیکل 62(1)F کے تحت نااہل قرار دے دیا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف اپیل جسٹس نقوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سنی جس نے مذکورہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے فواد چوہدری کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔

اسی روز جسٹس نقوی کے بینچ نے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء شاہد خاقان عباسی کی الیکشن ٹربیونل کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بھی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔

شاہد خاقان کے وارنٹ گرفتاری

10 ستمبر 2018 کو جسٹس نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک بینچ نے جسٹس نقوی کی سربراہی میں سابق وزیراعظم شاھد خاقان عباسی کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔

وکلا کا ہنگامہ

اگست 2017 میں جسٹس نقوی اس بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان بینچ کے صدر شیر زمان قریشی کے عدالت کے سامنے پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے جس کے بعد وکلاء نے لاہور ہائی کورٹ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔
21 ستمبر 2017 کو جسٹس نقوی نے پنجاب حکومت کو ماڈل ٹاون واقعے پر جسٹس علی باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔

سماعت سے انکار

2نومبر 2017 کو جسٹس نقوی نے جماعت الدعوٰہ کے سربراہ حافظ سعید کی نظربندی کے خلاف ایک درخواست کی سماعت کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ پنجاب حکومت کے خلاف صاف پانی مقدمہ کی سماعت کر رہے تھے کہ وہ مقدمہ ان سے کسی اور جج کو منتقل کر دیا گیا جبکہ قانون کے مطابق جس مقدمے کی سماعت جاری ہو اس کو منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے حافظ سعید کی نظربندی کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایسے ماحول میں کام نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس نقوی کو نوٹس

جسٹس نقوی کو سپریم جوڈیشل کونسل اس سے قبل بھی نوٹس جاری کر چکی ہے جس کو انہوں نے نومبر 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلینج کیا تھا جس پر اس وقت کے چیف جسٹس نے ان کی درخواست کی سماعت کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا تھا لیکن بعد میں اس معاملے پر مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی اور پھر جسٹس نقوی سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔

سنیارٹی لسٹ میں ہیرا پھیری

دسمبر 2016 میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس فرخ عرفان خان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ سنیارٹی لسٹ میں وہ جسٹس قاسم خان، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس مظہر اقبال سدھو سے اوپر تھے اور سنیارٹی لسٹ میں ردوبدل کر کے ان کو جونیئر ظاہر کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp