پی ٹی آئی کے نشان بلے کے ساتھ کرکٹ نہیں ہو رہی تھی

جمعرات 11 جنوری 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کو اس کا الیکشن کے لیے نشان بلا واپس دے دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو ٹھیک الیکشن نہ کروانے پر بلے کے نشان سے محروم کر دیا ہے۔ اب الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی بلے کے نشان کے لیے اگلا میچ سپریم کورٹ میں لگاتے ہیں یا نہیں۔ یہ ان کی مرضی، وقت بہت ہی کم رہ گیا ہے۔ پی ٹی آئی ایک بڑی جماعت ہے اس کا الیکشن نشان اس کے پاس برقرار رہنا چاہیے۔

بلاوجہ ایک وکٹم کارڈ پیدا کرنا اور اس کو استمال ہونے دینا۔ لوگوں کے جذبات مشتعل کرنا کوئی اچھی حکمت عملی نہیں۔ وہ بھی تب جب لوگ اور پارٹی دونوں ہی اپنے ہوں۔ بلا واپس مل گیا ہے اب پی ٹی آئی الیکشن میں اکثریت لے لے۔ مقبولیت ایک بات ہے، اس مقبولیت کو ووٹ میں تبدیل کرنا پھر 266 حلقوں میں اتنی سیٹیں لینا کہ حکومت بنائی جا سکے کوئی آسان ٹارگٹ ہر گز نہیں۔

ایک اہم بات جس کی طرف ہم توجہ نہیں دے رہے وہ کورس کریکشن ہے، پاکستان میں ادارے کورس کریکشن کر رہے ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں یوں ہیں۔ بھٹو پھانسی کیس عدالت میں دوبارہ لگ گیا ہے۔ نوازشریف کی نااہلی ختم ہو گئی ہے۔ صرف نااہلی ختم نہیں ہوئی بلکہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف پر عملدرامد ہی تقریباً معطل کر دیا ہے۔

آئین کی یہ شق جنرل ضیا نے آئین میں گھسائی تھی۔ سیاستدانوں کے سر پر اس کے ذریعے نااہلی کی تلوار لٹکائی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس کو تاحیات نا اہلی میں بدل دیا تھا۔ اب یہ درستگی کر لی گئی ہے۔ اب کپتان کو بھی تاحیات نا اہل نہیں کیا سکتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں اس شق پر تب تک عمل درامد معطل کر دیا ہے جب تک پارلیمنٹ اس شق کے لیے قانون سازی کر کے مکینزم نہیں بناتی اور اس کی تشریح نہیں کرتی۔

جنرل مشرف کی پھانسی کی سزا بھی واپس بحال ہو گئی ہے۔ جنرل مشرف وفات پا چکے ہیں۔ ان کو پھانسی کی سزا بحال کر کے عدالت نے سیاستدانوں اور آمروں کا اسکور ون ون سے فی الحال برابر کر دیا ہے۔ بھٹو پھانسی کیس کا البتہ عدالت اب ریویو سن رہی ہے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی مستعفی ہو گئے ہیں۔ یہ لاہور ہائی کورٹ کے اس بینچ کے بھی سربراہ تھے جس نے جنرل مشرف کو سزا معطل کی تھی۔ اگر ہم سیاست، جاری حالات کو ایک طرف رکھیں تو عدالت کورس کریکشن کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

یہ کورس کریکشن کہاں کہاں ہو رہی ہے۔ یہ ایک اچھا سوال ہے جس کی تفصیل کے لیے الگ سے ایک تحریر درکار ہے ۔ سنہ 2019 کے بعد پاکستانی سفارتکاروں کی سالانہ کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی ہے۔ اہم ملکوں میں پاکستانی سفیروں نے معاملات پر اپنے مشورے دیے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ اس وقت پاکستان کے تعلقات میں ایک تناؤ ہے۔ ٹی ٹی پی کے خلاف افغان حکومت کارروائی کرنے کو تیار نہیں۔ جس پر پاکستان نے کچھ سخت ایکشن لیے ہیں۔

صرف اس ایک ایشو کو ہی اگر ہم دیکھیں تو اس پر پاکستانی سفیر کیا کہتے ہوں گے؟ کوئی پوزیشن لینے سے پہلے اپنے ہی ذمہ داروں سے صلاح مشورہ۔ اچھی بات تو ہے۔ جب بات خارجہ امور کی ہو رہی ہو تو ڈرائیونگ سیٹ پر وزارت خآرجہ والوں کو ہی ہونا چاہیے۔ اگر اس کو بھی آپ کورس کریکشن سے جوڑتے ہیں۔ تو یہ کتنی اچھی بات ہے کہ جس کا کام ہے اسی کو آگے کیا جا رہا یا اسی کی صلاح سے کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کو بیٹ کا نشان واپس ملنا بھی ایک کورس کریکشن قسم کا کام ہے کہ نہیں؟ ایسا ہے تو یہ اچھا ہے کہ نہیں؟ کپتان غریب نے تبدیلی کی جنگ لڑنے کے لیے جو یوتھ تیار کی۔ ان کی ساری تربیت جنج لڑنے اور لوٹنے کے لیے ہی کی۔ کیسے ناچنا ہے، کیسے ویل پکڑنی، چھوٹی جگہ پر زیادہ ناچ کر دھرتی کیسے ہلانی ہے۔ پھر اپنے ان جنجی طیاروں کی تربیت سے خود ہی مطمئن ہو کر پنڈی کو ایک سیدھی ٹکر مار دی۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا، ہم دیکھ رہے ہیں وہ بھگت رہے ہیں۔

الیکشن کی پلاننگ کے لیے درکار وقت پی ٹی آئی کچہری چڑھنے، سزا سننے، اپیل کرنے، وکیلوں کے ہاتھ چڑھنے میں ضائع کر چکی ہے۔ اب 28 دن میں کامیابی کا کبوتر پکڑنا ہے جو پہلے ہی بادلوں میں اڑ رہا ہے۔ مسلم لیگ نون نے تسلی سے بیٹھ کر اپنی الیکشن مہم کی جزیات طے کی ہیں۔ اپنے امیدوار فائنل کیے ہیں۔ 13 تاریخ کو الیکشن کمیشن حتمی لسٹیں لگائے گا۔ 12 تاریخ کو نون ٹکٹوں کا اعلان کرے گی۔ الیکشن کے لیے 60 جلسوں کا بھی اعلان ہو چکا ہے۔ نوازشریف خود زیادہ سے زیادہ 15 اور کم از کم 12 ڈویژنوں میں جلسے کریں گے۔ مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی جلسے کریں گے۔ جو لوگ ٹکٹ سے رہ جائیں گے ان کے پاس اتنا ٹائم بھی نہیں بچے گا کہ کسی اور پارٹی میں شامل ہو جائیں۔ پی پی کو امید تھی کہ پی ٹی آئی کے کچھ امیدوار بلے کا نشان نہ ملنے پر، اور مسلم لیگ نون کے وہ لوگ جن کو ٹکٹ نہ ملا پی پی کے ساتھ آن ملیں گے۔ پی پی کے ساتھ نون لیگ نے پکا ہاتھ کیا ہے۔ آپ کو کیا لگتا کہ پی ٹی آئی کے بلے کے نشان کے ساتھ کرکٹ ہو رہی تھی؟ پی ٹی آئی کو اسی کے نشان بلے کے ساتھ اگلوں نے رج کے دھویا ہے۔ اب دھلائی رنگائی اور چھلائی کے بعد اور کپتان کے بغیر پی ٹی آئی الیکشن میں اترے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp